غزل
سینہ خُوں سے بھرا ہُوا میرا
اُف یہ بدمست مے کدہ میرا
نا رسائی پہ ناز ہے جس کو
ہائے وہ شوقِ نارَسا میرا
عِشق کو مُنہ دِکھاؤں گا کیونکر
ہجر میں رنگ اُڑ گیا میرا
دلِ غم دِیدہ پر خُدا کی مار
سینہ آہوں سے چِھل گیا میرا
یاد کے تُند و تیز جھونکے سے
آج ہر داغ جَل اُٹھا میرا
یادِ ماضی عذاب...
غزل
ہمارے ہاتھ تھے سُورج نئے جہانوں کے
سو اب زمِینوں کے ہم ہیں، نہ آسمانوں کے
ہزار گِرد لگا لیں قد آور آئینے
حَسب نَسب بھی تو ہوتے ہیں خاندانوں کے
حرُوف بِیں تو سبھی ہیں، مگر کِسے یہ شعوُر
کِتاب پڑھتی ہے چہرے، کِتاب خوانوں کے
یہ کیا ضرُور کہ ناموں کے ہم مِزاج ہوں لوگ
بہار اور خِزاں نام...
غزل
جُھوٹے اِقرار سے اِنکار اچھّا
تم سے تو مَیں ہی گُنہگار اچھّا
حبس چَھٹ جائے، دِیا جلتا رَہے!
گھر بس اِتنا ہی ہَوا دار اچھّا
عجز خواری ہے ، نہ ظاہر داری
عجز کو چاہئے معیار اچھّا
یہ عمارت ہے اِسی واسطے خُوب
اِس عمارت کا تھا معمار اچھّا
اب بھی اِک خدمتِ شہ خصلت میں!
شام کو جمتا ہے...
یاد پھر آئی تِری، موسم سلونا ہو گیا
شُغل سا آنکھوں کا بس دامن بھگونا ہو گیا
اب کسی سے کیا کہیں ہم کِس لئے برباد ہیں
اب کسی کی کیوں سُنیں جو کچھ تھا ہونا ، ہو گیا
گیت بابُل کے سُنانے تیری سکھیاں آ گئیں
میں تو بس بچپن کا اِک ٹُوٹا کھلونا ہو گیا
میری پلکوں پر مِرے خوابوں کی کرچیں رہ گئیں
نیند...