غزل
شکیلؔ بدایونی
عبرت آموزِ محبّت، یُوں ہُوا جاتا ہے دِل
دیکھتی جاتی ہے دُنیا، ڈُوبتا جاتا ہے دِل
شاہدِ نظّارۂ عالَم ہُوا جاتا ہے دِل
آنکھ، جوکُچھ دیکھتی ہے، دیکھتا جاتا ہے دِل
حضرتِ ناصح! بَجا ترغیبِ خُود داری، مگر
اِس طَرِیقے سے کہِیں، قابُو میں آجاتا ہے دِل
حشر تک وہ اپنی دُنیا کو لئے...
شکیلؔ بدایونی
غزل
قُدرت کے حَسِیں نظاروں میں پُرکیف خزانے اور بھی ہیں
میخانہ اگر وِیراں ہے تو کیا، رِندوں کے ٹھکانے اور بھی ہیں
آغازِ جَفا کی تلخی سے، گھبرا نہ دِلِ آزار طَلَب!
یہ وقت، یہیں پہ ختم نہیں، کُچھ تلخ زمانے اور بھی ہیں
لمحاتِ حَسِینِ پُرسِشِ غم، محدُود نہیں تا شُکرِ کَرَم
بے لفظ...
غزل
ہمارے ہاتھ تھے سُورج نئے جہانوں کے
سو اب زمِینوں کے ہم ہیں، نہ آسمانوں کے
ہزار گِرد لگا لیں قد آور آئینے
حَسب نَسب بھی تو ہوتے ہیں خاندانوں کے
حرُوف بِیں تو سبھی ہیں، مگر کِسے یہ شعوُر
کِتاب پڑھتی ہے چہرے، کِتاب خوانوں کے
یہ کیا ضرُور کہ ناموں کے ہم مِزاج ہوں لوگ
بہار اور خِزاں نام...
غزل
تابِ لب حوصلہ وَروں سے گئی
خُوئے پُرسِش بھی، خود سروں سے گئی
کب سے لو تھی شُعاع ِ مہر اُترے
آخر اِک جُوئے خُوں سروں سے گئی
بنی ایذا ہی چارۂ ایذا
زخم کی آگ نشتروں سے گئی
شرمِ مِنقار، تشنگی کیا تھی
تشنگی وہ تھی جو پروں سے گئی
چھاؤں کیا دی نئی فصیلوں نے!
آشنا دُھوپ بھی گھروں سے گئی...
غزل
جُھوٹے اِقرار سے اِنکار اچھّا
تم سے تو مَیں ہی گُنہگار اچھّا
حبس چَھٹ جائے، دِیا جلتا رَہے!
گھر بس اِتنا ہی ہَوا دار اچھّا
عجز خواری ہے ، نہ ظاہر داری
عجز کو چاہئے معیار اچھّا
یہ عمارت ہے اِسی واسطے خُوب
اِس عمارت کا تھا معمار اچھّا
اب بھی اِک خدمتِ شہ خصلت میں!
شام کو جمتا ہے...
غزل
سمائیں آنکھ میں کیا شُعبدے قیامت کے
مِری نظر میں ہیں جَلوے کسی کی قامت کے
یہاں بَلائے شبِ غم، وہاں بہارِ شباب !
کسی کی رات، کسی کے ہیں دِن قیامت کے
سِتارے ہوں تو سِتارے، نہ ہوں تو برقِ بَلا !
چراغ ہیں تو یہ ہیں بےکسوں کی تُربت کے
اُلٹ دِیا غمِ عِشقِ مجاز نے پردہ
حجابِ حُسن میں...
شکیل بدایونی
اِک عشق ہی کیا شعلہ فشاں میری غزل میں
پنہاں ہیں رموزِ دو جہاں میری غزل میں
تعمیر کے پہلوُ ہیں نہاں میری غزل میں
مِلتا نہیں رجعت کا نِشاں میری غزل میں
دیکھے تو کوئی دیدۂ ادراک و یقین سے
ہر منظرِ فطرت ہے جواں میری غزل میں
اُردو کو جس اندازِ بیاں کی ہے ضرورت
مِلتا ہے وہ اندازِ...