یہ ہے کیسا شورِ محشر کیسی بدلی ارض ہے
اگ رہی ہے فصلِ انس لہد کی ہر کوکھ سے
مردہ تھے ہم تو یہ زندہ آج کیسے ہوگئے
دیکھا جو یوں ہر طرف اوسان اپنے کھو گئے
اک کھلا میدان ہے اور ہر طرف آہو بکاہ
ہے کہاں کس کی یہ منزل آج کس کو ہے پتا
جان کر انجان بنتے برہنہ یہ لوگ ہیں
مٹ چکے ماں باپ اور کھو گئے کہیں پر...
ایک نئی غزل برائے اصلاح پیشِ خدمت ہے۔ تمام اساتذہ کرام اور احباب سے تنقید و تبصرے کی درخواست ہے۔
ہواؤں کے انداز بدلے ہوئے ہیں
خدا ہی بچائے مرے آشیاں کو
کٹے ہوئے پیڑوں نے یہ بددُعا دی
ترستے رہو اب میاں سائباں کو
تو کیا شہر سارے کو ہے جان کا خوف
پڑے ہوئے ہیں قفل سچ کی زباں کو
سراغ ایسے بھی مل...
شوق وہ ہے کہ انتہا بھی نہیں
درد ایسا ہے، کچھ دوا بھی نہیں
دم نکل جائے اتنا دم ہی کہاں!
اس پہ جینے کا آسرا بھی نہیں
یک بہ یک وار دوستوں کے سہے
ایسا باظرف تھا، مڑا بھی نہیں
ڈال رکھا ہے مجھ کو الجھن میں
مانتا بھی نہیں، خفا بھی نہیں
داد خواہی کی کیسے ہو امید
اس نے جب مدعا سنا بھی نہیں
وہ ستمگر...
استادِ محترم جناب الف عین ،دیگر اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں چند اشعار اصلاح کی نیت سے پیش کر رہا ہوں۔
نظم
نگاہوں میں مری کیسا یہ لرزہ خیز منظر ہے
سکوں عنقا ہوا ہے اور حالت دل کی ابتر ہے
شکستہ سی گلی ہے، گھر بھی کچھ مسمار دیکھے ہیں
کہ جیسے عہدِ رفتہ کے کوئی آثار دیکھے ہیں
کھڑا ہوں میں...
محترم سر الف عین ،
دیگر اساتذۂ کرام اور احباب کی نظر بغرضِ اصلاح
فاعلاتن مفاعلن فعلن
حق سے بھی ہم قدم نہیں ہوتے
سب یہاں اہلِ غم نہیں ہوتے
دل کبھی جن کے نم نہیں ہوتے
اور ہوتے ہیں وہ ہم نہیں ہوتے
ہاتھوں میں بزدلوں کے ہوں تو کیا!
ایسی تیغوں میں دم نہیں ہوتے
آج بھی ہیں یزید کے حامی...
مری اشکوں کا سیلاب سمجھ
مری حسرتوں کا خطاب سمجھ
جو تیری تلاش میں گزر گئے
کبھی ان دنوں کا حساب سمجھ
كوئ حالت نھیں یه حالت هے
لرزتے ھونٹوں کا سراب سمجھ
جانے کب یه سانس رک جائے
زندگانی کو تو حباب سمجھ
کچھ اپنے حسن کی خیرات دے
اس فقیر کو قابل ثواب سمجھ
الجھا ھوا ھوں چھروں سے میں
میری عادتیں نه...