پنڈت برج نارائن چکبست
دِل ہی بُجھا ہُوا ہو تو لُطفِ بہار کیا
ساقی ہے کیا ، شراب ہے کیا، سبزہ زار کیا
یہ دِل کی تازگی ہے ، وہ دِل کی فسُردگی
اِس گُلشنِ جہاں کی خِزاں کیا، بہار کیا
کِس کے فسُونِ حُسن کا دُنیا طلِسم ہے
ہیں لوحِ آسماں پہ یہ نقش و نِگار کیا
دیکھا سرُور بادۂ ہستی کا خاتمہ
اب...
غزل
(پنڈت برج ناراین چکبست لکھنوی)
دل ہی بجھا ہوا ہو تو لطفِ بہار کیا
ساقی ہے کیا ، شراب ہے کیا، سبزہ زار کیا
یہ دل کی تازگی ہے ، وہ دل کی فسردگی
اس گلشن ِ جہاں کی خزاں کیا بہار کیا
کس کے فسونِ حسن کا دنیا طلسم ہے
ہیں لوح آسماں پہ یہ نقش و نگار کیا
اپنا نفس ہوا ہے گلوگیر وقت...
غزل
پنڈت برج ناراین چکبست لکھنوی
روشِ خام پہ مردوں کی نہ جانا ہرگز
داغ تعلیم میں اپنی نہ لگانا ہر گز
پرورش قوم کی دامن میں تمہارے ہوگی
یاد اس فرض کی دل سے نہ بھلانا ہرگز
نقل یورپ کی مناسب ہے مگر یاد رہے
خاک میں غیرتِ قومی نہ ملانا ہرگز
رنگ ہے جن میں مگر بوے وفا کچھ بھی نہیں...