بسمل غزلیات

  1. مزمل شیخ بسمل

    تصوّر بھی مرا اے مہ جبیں دل میں نہیں تیرے

    غزل (مزمل شیخ بسملؔ) یہ حسرت تھی کہ پیکر انکا یوں پیشِ نظر ہوتا جبیں ہوتی ہماری اور انکا سنگِ در ہوتا یہ مرنے میں کوئی مرنا نہیں ہے، راہ میں مرنا مزہ مرنے کا جب تھا، آپ کے قدموں میں سر ہوتا دوبارہ دل لگی کرتے جو ہم، اور وہ دغا کرتے تو، پھر اک بار تازہ دم مرا زخم جگر ہوتا چکھا دیتا مزہ دشمن...
  2. مزمل شیخ بسمل

    مرے گناہوں سے معصیت بھی اب اپنا دامن جھٹک رہی ہے۔۔۔مزمل شیخ بسملؔ

    نگاہِ مسلم جو زورِ باطل کو آج حیرت سے تک رہی ہے یہ ساری طاقت غلام بن کر کہ عرصۂ طول تک رہی ہے عمل سے برقِ یقین کوندی ، اب اسکی مدت کڑک رہی ہے زمانہ حیرت سے تک رہا تھا، یہ کونسی شے چمک رہی ہے وہی چمک تو نگاہِ باطل میں آج تک بھی کھٹک رہی ہے وصالِ مومن کی جستجو میں جو آج در در بھٹک رہی ہے...
  3. مزمل شیخ بسمل

    وہ کسی کا میری جانب مسکرا کر دیکھنا-----مزمل شیخ بسملؔ

    ایک غیر طرحی مشاعرے میں لکھی گئی غزل۔ قارئین کی نذر۔ غزل اشکِ شبنم سے مجھے نرگس کا رو کر دیکھنا بعد مُردن تم مری تربت پہ آ کر دیکھنا پاؤ گے گل کاریِ خنجر سراسر دیکھنا زخمِ دل کا تم ذرا پھاہا چھٹا کر دیکھنا رنگ لائے گی فغاں کیا سر پہ چھا کر دیکھنا کھا ئے گا یہ آسماں چکر پہ چکر دیکھنا ایک...
Top