غزل
بیخودؔ دہلوی
ہو کے مجبُور آہ کرتا ہُوں
تھام کر دِل گُناہ کرتا ہُوں
ابرِ رحمت اُمنڈتا آتا ہے
جب خیالِ گُناہ کرتا ہُوں
میرے کِس کام کی ہے یہ اکسِیر
خاکِ دل، وقفِ راہ کرتا ہُوں
دِل سے خوفِ جَزا نہیں مِٹتا
ڈرتے ڈرتے گُناہ کرتا ہُوں
دِل میں ہوتے ہو تم، تو اپنے پر
غیر کا اشتباہ کرتا ہُوں...
غزلِ
بیخود دہلوی
اُٹھّے تِری محفِل سے تو کِس کام کے اُٹھّے
دل تھام کے بیٹھے تھے جگر تھام کے اُٹھّے
دم بھر مِرے پہلوُ میں اُنھیں چین کہاں ہے
بیٹھے کہ بہانے سے کِسی کام کے اُٹھّے
افسوس سے اغیّار نے کیا کیا نہ ملے ہاتھ
وہ بزم سے جب ہاتھ مِرا تھام کے اٹھے
دُنیا میں کِسی نے بھی یہ دیکھی...
غزل
’بیخود‘ موہانی
تو نے ازل میں دل پہ ہی کیسی نگاہ کی
اب تک ہے زلزلے میں زمیں جلوہ گاہ کی
پیری میں توبہ تو نے جو اے روسیاہ کی
طاقت گناہ کی ہے نہ لذت گناہ کی
موسیٰ ؑ کی بات ساتھ گئی انکے اور ہم
پلکوں سے جھاڑتے ہیں زمیں جلوہ گاہ کی
ایسا تو ہو کسی کو ستم رانیوں پہ ناز
کھاتے ہیں وہ قسم...
غزلِ
بیخود دہلوی
مے پِلا کر آپ کا کیا جائے گا
جائے گا ایمان، جس کا جائے گا
دیکھ کر مجھ کو وہ شرما جائے گا
یہ تماشہ کِس سے دیکھا جائے گا
جاؤں بُتخانے سے کیوں کعبے کو میں
ہاتھ سے، یہ بھی ٹِھکانہ جائے گا
قتل کی، جب اُس نے دی دھمکی مجھے
کہہ دیا میں نے بھی، دیکھا جائے گا
پی بھی لے دو گھونٹ،...
غزلِ
بیخود دہلوی
یہ دل کبھی نہ محبت میں کامیاب ہُوا
مجھے خراب کِیا آپ بھی خراب ہُوا
اَجل میں،زِیست میں، تُربت میں، حشْرمیں ظالم
تِرے سِتم کے لِئے میں ہی اِنتخاب ہُوا
نگاہِ مست کو ساقی کی کون دے الزام
مِرا نصیب، کہ رُسوا مِرا شباب ہُوا
ہمارے عشق کی دس بیس نے بھی داد نہ دی
کِسی کا حُسن،...