غزل
بیخود بدایونی
شبِ فرقت میں آجاتی اَجل ، تو اُس کا کیا جاتا
وہ کیا مُنہ کا نوالہ تھی جو کوئی اُس کو کھا جاتا
چُرائی جان مرنے سے ، یہ طعنہ کب سُنا جاتا
نہ کھاتا زخم خنجر کا ، تو کیا میں زہر کھا جاتا
نہ جاتا ساتھ میّت کے ، مگر مجھ کو مِٹا جاتا
مِری بالیں پہ وہ میری طبیعت بن کے آ جاتا...