غزل
(بہزاد لکھنوی)
غم نہیں ہے ہمیں ملال نہیں
حال یہ ہے کہ کوئی حال نہیں
اب ستم ہو تو کیا، کرم ہو تو کیا
اب کسی بات کا خیال نہیں
اک نظر کہہ گئی جو کہنا تھا
ہر نظر مائلِ سوال نہیں
اب تو کچھ کچھ سکوں بھی ملتا ہے
مضطرب ہوں مگر حال نہیں
اپنی بربادیوں کا کیوں غم ہو
یہ تو آغازِ ہے مآل نہیں
مل چکا...