تم یاد مجھے آجاتے ہو
(بہزاد لکھنوی)
تم یاد مجھے آجاتے ہو
جب صحنِ چمن میں کلیاں کھل کر پھول کی صورت ہوتی ہیں
اور اپنی مہک سے ہر دل میں ایک تخمِ لطافت بوتی ہیں
تم یاد مجھے آجاتے ہو
تم یاد مجھے آجاتے ہو
جب برکھا کی رُت آتی ہے، جب کالی گھٹائیں اُٹھتی ہیں
جس وقت کہ رندوں کے دل سے ہوحق کی صدائیں...
میں یاد تمہیں کرلیتا ہوں
(بہزاد لکھنوی)
جب مست بہاریں آتی ہیں
پھولوں کو گرما جاتی ہیں
میں یاد تمہیں کرلیتا ہوں
اور دل کو تسلّی دیتا ہوں
جب کوئی مغنی گاتا ہے
دنیا کو مست بناتا ہے
میں یاد تمہیں کرلیتا ہوں
اور دل کو تسلّی دیتا ہوں
جب صبح کا منظر ہوتا ہے
جب شاد گل تر ہوتا ہے
میں یاد تمہیں...
تم سے شکایت کیا کروں؟
(بہزاد لکھنوی)
ہوتا جو کوئی دوسرا
کرتا گِلہ میں درد کا
تم تو ہو دل کا مدّعا
تم سے شکایت کیا کروں
دیکھو، ہے بلبل نالہ زن
کہتی ہے احوالِ چمن
میں چپ ہوں گو ہوں پُرمحن
تم سے شکایت کیا کروں
مانا کہ میں بےہوش ہوں
پر ہوش ہے پُرجوش ہوں
یہ سوچ کر خاموش ہوں
تم سے شکایت کیا کروں
تم...
آفتاب آیا
(بہزاد لکھنوی)
بزم میں ساغرِ شراب آیا
یعنی گردش میں آفتاب آیا
جب بھی آیا مجھے خیالِ سکوں
رقص میں دل کا اضطراب آیا
ان سے نظروں کے چار ہوتے ہی
زندگی میں اک انقلاب آیا
کچھ سمجھ میں نہ آسکی یہ بات
مجھ سے کیوں آپ کو حجاب آیا
منظرِ عام پر وہ کیا آئے
کل زمانے پہ اک شباب آیا
چار جانب بکھر...
جامِ رنگیں
(بہزاد لکھنوی)
آرہے ہو اور نظر ہے جام پر
مر مٹا میں لغزشِ ہرگام پر
بےسبب آنسو نہیں بہتے مرے
رو رہا ہوں میں دلِ ناکام پر
زاہدِ ناداں نے لا کر صدقے کئے
لاکھ تقوے، ایک رنگیں جام پر
ہو گیا میخانے میں کتنا ہجوم
ایک آوازِ صلائے عام پر
عشق کی آخر نظر پڑ ہی گئی
حُسن کے آغاز اور انجام پر...
نگاہِ حُسن
(بہزاد لکھنوی)
شبِ غم یہ کیوں مختصر ہوگئی
الہٰی ابھی سے سحر ہوگئی
کبھی آہ کی اور کبھی رو دیئے
اسی حال میں رات بھر ہوگئی
رہِ عشق میں صرف اتنا ہوا
جبیں واقفِ رہ گزر ہوگئی
مبارک، مرا دل تڑپنے لگا
نظر آپ کی کارگر ہوگئی
کبھی آہ ہم نے نہ کی درد میں
کبھی گر ہوئی آنکھ تر ہوگئی
نگاہِ محبت...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
خوشا بخت اے دل تجھے کچھ خبر ہے
یہ شب کی لطافت نویدِ سحر ہے
تھا جیسا اسی طرح دردِ جگر ہے
ہماری سحر آہ کیسی سحر ہے
مٹایا ہے کس نے، بنایا ہے کس نے
ہمیں کب خبر تھی، ہمیں کب خبر ہے
ہر اک جا وہی ہے، وہی ماہِ پیکر
یہ کیفِ نظر یا فریبِ نظر ہے
اسی واسطے کر رہا ہوں میں سجدے
میں یہ...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
آنکھوں میں اشکِ غم جو مرے پا رہے ہو تم
اللہ جانتا ہے کہ یاد آرہے ہو تم
کہنے بھی دو سکوں سے مجھے داستانِ غم
یہ کیا کہ بات بات پہ شرما رہے ہو تم
ہاں ہاں وفا کرو گے یہ مجھ کو یقین ہے
بےکار میرے سر کی قسم کھا رہے ہو تم
یا خود ہی بڑھ گئی ہے یہ تابانیء جہاں
یا گوشہء نقاب کو سرکا...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
محبت کی دنیا میں آؤ تو جانیں
ذرا دل کسی سے لگاؤ تو جانیں
محبت میں تم کو بھی ہنسنا مبارک
ذرا اب نہ آنسو بہاؤ تو جانیں
تمہاری نظر درد سے آشنا ہے
نظر سے نظر کو ملاؤ تو جانیں
یہ محشر ہے محشر، یہ دنیا نہیں ہے
یہاں بھی کوئی حشر اُٹھاؤ تو جانیں
تمہاری بھی آنکھوں میں آنسو بھرے ہیں...
چاند سے دو دو باتیں
(بہزاد لکھنوی)
ارے اے چاند! اے چرخِ بریں کی زیب و زیبائی
بھلا یہ تو بتا پائی کہاں سے تونے رعنائی
تری رعنائیاں ملتی ہیں روئے جاناں سے
نہ پوچھ اب کفر سامانی کی باتیں میرے ایماں سے
تری رفتار کچھ کچھ مل رہی ہے چال سے اُن کی
اسی سے سارے عالم پہ ہے گویا بیخودی چھائی
فلک کے چاند،...
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
(بہزاد لکھنوی)
طبیعت کو افسردہ سا پارہا ہوں
اِدھر جارہا ہوں، اُدھر جارہا ہوں
وہ باتیں نہیں ہیں، وہ ہنسنا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے
خدا جانے یہ مجھ کو کیا ہوگیا ہے
یہ محسوس کرتا ہوں کچھ کھو گیا ہے
مجھے ہوش تک ہائے اپنا نہیں ہے
بہت دن ہوئے تم کو...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
تھی پرسکون دُنیا، خاموش تھیں فضائیں
میں نے بھریں جو آہیں، چلنے لگیں ہوائیں
اُلفت کا جب مزا ہے، ملنے کی ہوں دعائیں
تم ہم کو یاد آؤ، ہم تم کو یاد آئیں
تم خوش ہو گر اسی میں ہم پر رہیں بلائیں
ہم بھی ہیں خوش اسی میں ہاں ہاں کرو جفائیں
جاؤ خدا نگہباں الٹی چلیں ہوائیں
تم ہم کو...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
حُسن نے یا کہ عشق نے، کس نے یہ گل کھلا دیا
تجھ کو خدا بنا دیا، بندہ مجھے بنا دیا
اب یہ کمالِ کفر ہو یا کہ کمالِ دین ہو
آپ کے پائے ناز پر میں نے تو سر جھکا دیا
دل کی خلش کو کیا کہوں، دل بھی عجیب چیز ہے
اس کو میں کررہا ہوں یاد، جس نے مجھے بھُلا دیا
یہ مرا اضطرابِ عشق یعنی یہی...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
لے لے کے تری زلف نے ایمان ہزاروں
کرڈالے زمانہ میں مسلمان ہزاروں
اس غم کا برا ہو کہ زمانے میں ابھی تک
پھرتے ہیں ترے غم کے پریشان ہزاروں
اے جانِ بہاراں تجھے معلوم نہیں ہے
تیرے لئے پُرزے ہیں گریبان ہزاروں
اعجازِ محبت تو کوئی دیکھ لے آکر
ہیں میرے دلِ تنگ میں ارمان ہزاروں
کیا...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
دل میرا تیرا تابع فرماں ہے کیا کروں
اب تیرا کفر ہی مرا ایماں ہے کیا کروں
باہوش ہوں مگر مرا دامن ہے چاک چاک
عالم یہ دیکھ دیکھ کے حیراں ہے کیا کروں
ہر طرح کا سکون ہے ہر طرح کا ہے کیف
پھر بھی یہ میرا قلب پریشاں ہے کیا کروں
کہتا نہیں ہوں اور زمانہ ہے باخبر
چہرے سے دل کا حال...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
تم کو بُلا تو لوں، مگر، آبھی سکو گے تم
سچ سچ کہو، یہ بار اُٹھا بھی سکو گے تم
تم کو تخیلات میں لا تو رہا ہوں میں
بزمِ تصوّرات سجا بھی سکو گے تم
اظہارِ عاشقی تو کروں لاکھ بار میں
بارِ جنونِ شوق اُٹھا بھی سکو گے تم
جلوؤں سے چار ہونے کو تیار ہے نظر
اس کو فریبِ حسن میں لا بھی...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
سر ہے قدموں پہ بے خودی تو دیکھ
اپنے بندے کی بندگی تو دیکھ
بےخبر خود سے، باخبر تجھ سے
بےخودی میں یہ آگہی تو دیکھ
جان دینے کو زندگی سمجھے
عشق والوں کی زندگی تو دیکھ
مدبھری مست انکھڑیوں والے
تیرے قرباں ادھر کبھی تو دیکھ
غم میں مسرور ہوں، الم میں خوش
کیا خوشی ہے مری خوشی...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
بہت ہی حسیں ہے تمہارا تصوُّر
نظر آفریں ہے تمہارا تصوُّر
مرے دل کی زینت نگاہوں کی زینت
بھلا کب نہیں ہے، تمہارا تصوُّر
نگاہیں تصوّر کی خیرہ نہ ہوں کیوں
بڑا مہ جبیں ہے تمہارا تصوُّر
مبارک ہو یہ ربط حسن و محبت
ہماری جبیں ہے تمہارا تصوُّر
تمہارا تخیّل ہے ایمان دل کا
نگاہوں کا...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
کیا یہ بھی میں بتلا دوں ، تُو کون ہے ، میں کیا ہوں
تو جانِ تماشا ہے، میں محوِ تماشا ہوں
تو باعثِ ہستی ہے، میں حاصلِ ہستی ہوں
تو خالقِ اُلفت ہے اور میں ترا بندہ ہوں
جب تک نہ ملا تھا تو اے فتنہء دوعالم
جب درد سے غافل تھا، اب درد کی دُنیا ہوں
کچھ فرق نہیں تجھ میں اور مجھ میں...
غزل
(بہزاد لکھنوی)
حُسن کی جنّتیں ارے توبہ
عشق کی حیرتیں ارے توبہ
ٹیس اٹھتی ہے مسکراتا ہوں
درد کی لذتیں ارے توبہ
ہائے اس زندگی میں اس دل پر
روز کی آفتیں ارے توبہ
دل پرسانِ حال کوئی نہیں
اس پہ یہ حسرتیں ارے توبہ
عشق کے ساتھ بندگی بھی کروں
اس قدر فرصتیں ارے توبہ
لُٹ رہی ہیں بصورت جلوہ
حسن کی...