مجھے در سے اپنے تو ٹالے ہے یہ بتا مجھے تو کہاں نہیں
کوئی اور بھی ہے ترے سوا تو اگر نہیں تو جہاں نہیں
پڑی جس طرف کو نگاہ یاں نظر آ گیا ہے خدا ہی واں
یہ ہیں گو کہ آنکھوں کی پتلیاں مرے دل میں جائے بتاں نہیں
مرے دل کے شیشے کو بے وفا تو نے ٹکڑے ٹکڑے ہی کر دیا
مرے پاس تو وہی ایک تھا یاں دکان...
یہ جو لاہور سے محبت ہے
یہ کسی اور سے محبت ہے
اور وہ "اور" تم نہیں شاید
مجھ کو جس اور سے محبت ہے
یہ ہوں میں اور یہ مری تصویر
دیکھ لے غور سے محبت ہے
بچپنا، کمسنی، جوانی آج
تیرے ہر دور سے محبت ہے
ایک تہذیب ہے مجھے مقصود
مجھ کو اک دور سے محبت ہے
اس کی ہر طرزمجھ کو بھاتی ہے
اس کے ہر طور سے محبت ہے
کر رہے قریہ قریہ زندگی کی جستجو ، میں اور تُو
ہو گئے آوارگی کے نام پر بے آبرو، میں اور تُو
تھے جہاں رسموں رواجوں کے اندھیروں پر فدا، اب اُس جگہ
معذرت بن کر کھڑے ہیں روشنی کے روبرو، میں اور تُو
کُچھ دنوں سے میں تری اور تُو مری مہمان ہے،کیا شان ہے
بن چکے ہیں عکسِ جاں اک دوسرے کا ہو بہو،میں اور...
یا تو مرا خمیر کسی شان سے اُٹھا
یا پِھر یہ اپنا بوجھ مری جان سے اُٹھا
یہ پر یقین کے تو ملے بعد میں مُجھے
اڑنے کا شوق تو فقط امکان سے اُٹھا
ورنہ اُٹھا کے پھینک نہ دوں میں اِسے کہیں
سُن دیکھ اپنا آئینہ ایمان سے، اُٹھا
سارے ستم گزار مگر اک وقار سے
جتنے جفا کے ہاتھ اُٹھا مان سے اُٹھا...
قصہ ” فاتح“ سے ” مفتوح “ کی پہلی ملاقات کا
(مفتوح کی وضاحت آگے چل کر ہوگی )
شام ۵ بجے کے قریب لوحِ برقیات پر دستک ہوئی ، ہم نے ناب گھما کر رابطہ استوار کیا تو دوسری جناب ” فاتح الدین بشیر “ تھے ، دعا سلام کے بعد معلوم ہو ا کہ جناب شہرِ خرابی ( کراچی) میں سکونت پزیر ہوچکے ہیں پہلے تو خبر...