دکھ رہے گا کہ شک کیا تم پرٗ

  1. س

    غزل

    کہِیں اَولاد کا غم ہے کہِیں جاگیر کا دکھ کون محسوس کرے گا مِری تحریر کا دکھ لوگ شہکار کو دیکھیں گے مُصوّر کو کبھی کون سمجھے گا کسی غم زدہ تصویر کا دکھ اِس نے رہنا ہے مرے بعد بھی زندانوں میں مجھ سے دیکھا نہیں جاتا مِری زنجیر کا دکھ دینے والے نے مجھے خوب نوازا ہے مگر میں نے پھر بھی نہیں لکھا...
  2. س

    غزل ( دکھ )

    دکھ رہے گا کہ شک کیا تم پر دکھ رہے گا کہ شک صحیح نکلا لوگ جو نام تجھ کو دیتے رہے دکھ رہے گا کہ تو وہی نکلا تونے جب بھی مجھے دعائیں دیں دکھ رہے گا کہ درد ہی نکلا تیری دہلیز چھو کے لوٹ آیا دکھ رہے گا کہ جب کبھی نکلا ایک ہی شخص تھا فقط اپنا دکھ رہے گا کہ مطلبی نکلا سید بشارت شاہ
Top