ضیا جالندھری

  1. طارق شاہ

    چاند ہی نِکلا، نہ بادل ہی چَھما چَھم برسا ۔ ضیاؔ جالندھری

    غزل ضیاؔ جالندھری چاند ہی نِکلا، نہ بادل ہی چَھما چَھم برسا رات دِل پر، غَمِ دِل صُورتِ شبنم برسا جلتی جاتی ہیں جَڑیں، سُوکھتے جاتے ہیں شَجر ہو جو توفیِق! تو آنسو ہی کوئی دَم برسا میرے ارمان تھے برسات کے بادل کی طرح غُنچے شاکی ہیں کہ، یہ ابر بہت کم برسا پے بہ پے آئے، سجل تاروں کے...
  2. راشد اشرف

    سن 52 کی مشاہیر ادب کی چند تصاویر‎

    حلقہ ارباب ذوق لاہور کے تحت لاہور سے ایک جریدہ شائع ہوا کرتا تھا "نئی تحریریں"۔ 1947 سے 1974 اس کا اشاعتی زمانہ رہا تھا۔ یہ ہ زمانہ تھا جب قیوم نظر حلقے کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔ یہ تذکرے کئی خودنوشتں میں ملتے ہیں۔ بعد ازاں‌ یوسف ظفر اور مختاز صدیقی بھی ان میں شامل ہوگئے تھے۔ آج پرانی کتابوں...
  3. طارق شاہ

    ضیا جالندھری :::: چاند ہی نِکلا نہ بادل ہی چھماچھم برسا ::::: Zia Jalandhri

    غزلِ ضیا جالندھری چاند ہی نِکلا نہ بادل ہی چھماچھم برسا رات دِل پر، غمِ دِل صُورتِ شبنم برسا جلتی جاتی ہیں جڑیں، سُوکھتے جاتے ہیں شجر ہو جو توفیق تو آنسو ہی کوئی دَم برسا میرے ارمان تھے برسات کے بادل کی طرح غنچے شاکی ہیں کہ، یہ ابْر بہت کم برسا پے بہ پے آئے سجل تاروں کی مانند خیال...
  4. طارق شاہ

    ضیا جالندھری :::: رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے -- Zia Jalandhri

    غزلِ ضیا جالندھری رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے درد پھولوں کی طرح مہکیں، اگر تُو آئے بھیگ جاتی ہیں اِس اُمّید پر آنکھیں ہر شام شاید اِس رات وہ مہتاب لبِ جُو آئے ہم تیری یاد سے کترا کے گزُر جاتے مگر راہ میں پُھولوں کے لب، سایوں کے گیسُو آئے وہی لب تشنگی اپنی، وہی ترغیبِ...
  5. طارق شاہ

    ضیا جالندھری ::::جب اُنہی کو نہ سُنا پائے غمِ جاں اپنا -- Zia Jalandhri

    غزلِ ضیا جالندھری جب اُنہی کو نہ سُنا پائے غمِ جاں اپنا چُپ لگی ایسی، کہ خود ہو گئے زنداں اپنا نا رسائی کا بیاں ہے، کہ ہے عرفاں اپنا اس جگہ اَہْرَمن اپنا ہے، نہ یزداں اپنا دم کی مُہلت میں ہے، تسخیرِ مہ و مہر کی دُھن ! سانس، اِک سلسلۂ خوابِ درخشاں اپنا ہے طلب اُس کی ، کہ جو سرحدِ اِمکاں...
  6. طارق شاہ

    ضیا جالندھری :::: کیا سَروکار اب کسی سے مُجھے -- Zia Jalandhri

    غزلِ ضیا جالندھری کیا سَروکار اب کسی سے مجھے واسطہ تھا، تو تھا تجھی سے مجھے بے حسی کا بھی اب نہیں احساس کیا ہُوا تیری بے رُخی سے مجھے موت کی آرزو بھی کر دیکھوں ! کیا اُمیدیں تھیں زندگی سے مجھے پھر کسی پر، نہ اعتبار آئے! یوں اُتارو نہ اپنے جی سےمجھے تیرا غم بھی نہ ہو، تو کیا جِینا کچھ...
Top