جس نے ہمارے دل کا نمونہ دکھا دیا
اُس آئینہ کو خاک میں اُس نے مِلا دیا
معشوق کو اگر دلِ بے مدعا دیا
پوچھے کوئی خُدا سے کہ عاشق کو کیا دیا
بے مانگے دردِعشق وغم جاںگزا دیا
سب کُچھ ہمارے پاس ہے اللہ کا دیا
ناوک ابھی ہے شست میں صیاد کے مگر
اُٹھتی ہیں اُنگلیاں وہ نشانہ اُڑا دیا...
بُتوں نے ہوش سنبھالا جہاں شعور آیا
بڑے دماغ بڑے ناز سے غرور آیا
اُسے حیا اِدھر آئی اُدھر غرور آیا
میرے جنازے کے ہمراہ دور دور آیا
زُباں پہ اُن کےجو بھولے سےنامِ حور آیا
اُٹھا کے آئینہ دیکھا وہیں غرور آیا
تُمھاری بزم تو ایسی ہی تھی نشاط افزا
رقیب نے بھی اگر پی مجھے سرور آیا
کہاں کہاں دل...
اس کعبہِ دل کو کبھی ویران نہیں دیکھا
اُس بت کو کب اللہ کا مہماں نہیں دیکھا
کیا ہم نے عذابِ شبِ ہِجراں نہیں دیکھا
تُم کو نہ یقیں آئے تو ہاں ہاں نہیں دیکھا
کیا تو نے میرا حال پریشاں نہیں دیکھا
اس طرح سے دیکھا کہ میری جاں نہیں دیکھا
جب پڑا وصل میں شوخی سے کسی کا
پھر ہم نے گریباں کو گریباں...
ایک تو حسن بلا اس پہ بناوٹ آفت
گھر بگاڑیں گے ہزاروں کے، سنورنے والے
حشر میں لطف ہو جب ان سے ہوں دو باتیں
وہ کہیں کون ہو تم، ہم کہیں مرنے والے
غسل میت کو شہیدوں کو ترے کیا حاجت
بے نہائے بھی نکھرتے ہیں نکھرنے والے
حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے
اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے
غزل
کونسا طائرِ گم گشتہ اسے یاد آیا
دیکھتا بھالتا ہر شاخ کو صیّاد آیا
میرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا
وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا
کوئی بھولا ہوا اندازِ ستم یاد آیا
کہ تبسّم تجھے ظالم دمِ بیداد آیا
لائے ہیں لوگ جنازے کی طرح محشر میں
کس مصیبت سے ترا کشتۂ بیداد آیا
جذبِ وحشت ترے...
غزل
راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھُل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
یہ بھی تم جانتے ہو چند ملاقاتوں میں
آزمایا ہے تمہیں ہم نے کئی باتوں میں
غیر کے سر کی بلائیں جو نہیں لیں ظالم
کیا مرے قتل کو بھی جان نہیں ہاتھوں میں
ابرِ رحمت ہی برستا نظر آیا زاہد
خاک اڑتی کبھی دیکھی نہ...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے
ذکر مہر و وفا تو ہم کرتے
پر تمہیں شرمسار کون کرے
جو ہو اوس چشم مست سے بیخود
پھر اوسے ہوشیار کون کرے
تم تو ہو جان اِک زمانے کی
جان تم پر نثار کون کرے
آفتِ روزگار جب تم ہو
شکوہء روزگار کون کرے...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
یوں چلئے راہِ شوق میں جیسے ہوا چلے
ہم بیٹھ بیٹھ کر جو چلےبھی تو کیا چلے
بیٹھے اُداس اُٹھے پریشان خفا چلے
پوچھے تو کوئی آپ سے کیا آئے کیا چلے
آئینگی ٹوٹ ٹوٹکر قاصد پر آفتیں
غافل اِدھر اُدھر بھی ذرا دیکھتا چلے
ہم ساتھ ہو لئے تو کہا اُس نے غیر سے...