کفن سے منہ کی طرح ہیں ڈھکی ہوئی چیخیں
یہ آدمی ہیں کہ غم سے مری ہوئی چیخیں
اگر فضا میں گھل گئیں تو کیا ہوگا
یہ میرے سینے کے اندر دبی ہوئی چیخیں
وہ ریت، ماہ محرم کی تیز دھوپ، وہ پیاس
کنار آب ہیں اب تک رکی ہوئی چیخیں
فلک سے آگ گری ہے زمین والوں پر
نگر میں پھیل گئی ہیں جلی ہوئی چیخیں
ہوائے موسم گریہ...
چیخنا ہے مجھے
اس زمین پر
نہیں
آسماں میں
نہیں
ان وجودوں کی لا میں
خلا میں
مجھے چیخنا ہے
انا کی انا مین
مگر کس سزا میں
کہ جیون بتایا ہے اس کربلا میں
مجھے چیخنا ہے خلا میں
جہاں اپنی چیخیں میں خود ہی سنوں
فیصلہ خود کروں
ان وجودوں کو کیا میں جیوں یا مروں
" برائے فروخت "
روح چاہیے تم کو
یا بدن خریدو گے
موت سب سے سستی ہے
سامنے کے شیلفوں میں
رنگ رنگ آنکھیں ہیں
ساتھ نیند رکھی ہے
خواب اس طرف کو ہیں
سب سے آخری صف میں
حسن کی کتابیں ہیں
خیر کے فسانے ہیں
فرسٹ فلور پر سائنس
میگزین فیشن کے
اور علم دولت ہے
آج کی ضرورت ہے
سب سے بیش قیمت ہے
فرش پر جو رکھا ہے...
پہلے سفر کے واسطے صحرا دیا مُجھے
پھر خود سراب بن گیا دھوکہ دیا مُجھے
کس باڑ میں لپیٹ دیا میری روح کو
کوشش نے بھی چھڑانے کی زخما دیا مُجھے
میں چاند بن کے سوچتا رہتا ہوں ساری رات
کالے گگن پہ کس لئے لٹکا دیا مُجھے
میں نے اُٹھا کے طاق سے دے مارا خاک پر
آنکھیں دکھا رہا تھا یہ جلتا دیا...