غزلِ
فروغِ شہرِ صدا پرتوِ خیال سے تھا
کہ یہ طلِسم تو بس خواہشِ وِصال سے تھا
جو کھو گیا کسی شب کے سِیہ سمندر میں
بندھا ہُوا میں اُسی لمحۂ زوال سے تھا
میں قید ہوگیا گُنبد میں گوُنج کی مانند
کہ میرا ربط ہی اِک ناروا سوال سے تھا
جو خاک ہو کے ہَواؤں میں بہہ گیا ہے کہیں
مِرا وجُود اُسی...