تبصرہ اس کے بدن پر بس یہی کرتا رہا
آسماں تجھ کو بنا کر کافری کرتا رہا
میں ابوجہلوں کی بستی میں اکیلا آدمی
چاہتے تھے جو ، وہی پیغمبری کرتا رہا
نیند آجائے کسی صورت مجھے، اس واسطے
میں ، خیالِ یار سے پہلو تہی کرتا رہا
کھول کر رنگوں بھرے سندر پرندوں کے قفس
میں بہشت ِ دید کے ملزم بری کرتا رہا...