غزل
(ذرہ حیدر آبادی)
درد بہت ہے زُلف بکھیرے رکھو نہ
تم سینے پہ ہاتھ تو میرے رکھو نہ
اب آنگن میں دھوپ کی کرنیں آئیں گی
ایسے ایسے پیارے چہرے رکھو نہ
چال تمہاری پہلے ہی مستانی ہے
اب قدموں کو دھیرے دھیرے رکھو نہ
خوشیاں سب کو بانٹ سکو تو بانٹو تم
گھر میں ایسے چاند ستارے رکھو...
غزل
دوست دشمن نظر نہیں آتے
اب تو پتھر بھی گھر نہیں آتے
دوستی ہو گئی ستاروں سے
خواب اب رات بھر نہیں آتے
سب کو رونا مرا مذاق لگے
اشک آنکھوں میں بھر نہیں آتے
مجھ سے پوچھا یہ رات وحشت نے
آج کل آپ گھر نہیں آتے
باپ سے پوچھو کیا گذرتی ہے
بیٹیوں کے جو بَر نہیں آتے
(ذرّہ حیدر آبادی)
غزل
(ذرّہ حیدرآبادی - حیدرآباد دکن)
زخم اِتنے ہیں کیا دیکھائیں ہم
دل یہ کرتا ہے بھول جائیں ہم
پیار اُن سے ہمیشہ رہتا ہے
جِن سے دھوکا ہمیشہ کھائیں ہم
آگئی ہے بہار گلشن میں
تم بھی آؤ تو مُسکرائیں ہم
آج ہم سے مِلو اکیلے میں
دل کی حالت تمہیں بتائیں ہم
آؤ اُس کو بھی بے وفا بولیں...