ذکریا شاذ

  1. فرخ منظور

    دھوپ سروں پر اور دامن میں سایا ہے ۔ ذکریا شاذ

    دھوپ سروں پر اور دامن میں سایا ہے سن تو سہی جو پیڑوں نے فرمایا ہے کیسے کہہ دوں بیچ اپنے دیوار ہے جب چھوڑنے کوئی دروازے تک آیا ہے اس سے آگے جاؤ گے تب جانیں گے منزل تک تو رستہ تم کو لایا ہے بادل بن کر کتنا اونچا جائے بھی پانی آخر مٹی کا سرمایا ہے شاذ محبت کو اپنانا کھیل نہیں اپنے...
  2. فرخ منظور

    کیک سے کاٹی ہوئی ایک نظم ۔ ذکریا شاذ

    اے لڑکی اے اور طرح کی باتوں والی جھوٹ اور کھوٹ سے خالی لڑکی تو نے کیسی سرشاری دلداری سے ایک انوکھی من موہنی فرمائش کی ہے سوچ رہا ہوں میری تجھ سے بس اتنی سی رسم و رہ ہے کہ میں تیرے کان میں آکر چپکے چپکے چوری چوری ویسی ہی سرشاری اور دلداری سے بس اتنا کہہ دوں اے لڑکی! اے اور طرح کی...
Top