ذوالفقار نقوی کی غزلیں

  1. ذوالفقار نقوی

    طبیعت کوئی ٹونا کر گئی ہے

    طبیعت کوئی ٹونا کر گئی ہے مجھے خود کا نشانہ کر گئی ہے خرد کا بهی ہے اک طُرفہ تماشا مخالف سب زمانہ کر گئی ہے سمجھتا ہوں زباں اِن پتھروں کی مجھے مٹی سیانا کر گئی ہے جو اک تصویر محو ِ گفتگو تهی وہ پتهر میں ٹهکانا کر گئی ہے غلاف ِ تیرگی میں ہیں صحیفے سیاہی باب کانا کر گئی ہے ذوالفقار نقوی
  2. ذوالفقار نقوی

    صدیوں کے بعد ہوش میں جو آ رہا ہوں میں

    صدیوں کے بعد ہوش میں جو آ رہا ہوں میں لگتا ہے پہلے جرم کو دہرا رہا ہوں میں پُر ہول وادیوں کا سفرہے بہت کٹھن ''لے جا رہا ہے شوق چلا جا رہا ہوں میں'' خالی ہیں دونوں ہاتھ اور دامن بھی تار تار کیوں ایک مشتِ خاک پہ اِترا رہا ہوں میں شوقِ وصالِ یار میں اک عمر کاٹ دی اب بام و در سجے ہیں تو...
  3. ذوالفقار نقوی

    نہ کلیوں اور پھولوں کی مہک ہے ۔۔ ذوالفقار نقوی

    نہ کلیوں اور پھولوں کی مہک ہے مری مٹی ہے، میری ہی مہک ہے نہ کلیوں اور پھولوں کی مہک ہے مری مٹی ہے، میری ہی مہک ہے مرے دشتِ جنوں سے کون گذرا یہ کس کی اب تلک باقی مہک ہے کہاں سے آئے ہیں شعلے لپکتے کہ اِن میں جانی پہچانی مہک ہے دیے میں خونِ دل ڈالا ذرا کیا ہواؤں سے الجھنے کی مہک ہے کسی آہٹ...
  4. ذوالفقار نقوی

    کار گاہِ زندگانی کو زیاں سمجھا تھا میں

    علامہ اقبال کے اِس مصرعے پر تضمین ۔۔ ''اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں'' کار گاہِ زندگانی کو زیاں سمجھا تھا میں آفرینش کو بھی اپنی رائیگاں سمجھا تھا میں اُسجدو کے حکم نے یہ منکشف مجھ پر کیا اَحسنِ تقویم ہوں میں، یہ کہاں سمجھا تھا میں ہے کرم شاخِ تمنا پر یہ برگِ لالہ زار آرزوئے فصلِ...
  5. ذوالفقار نقوی

    لے لے سکون قلب بھی، جو چاہے دے سزا مجھے

    لے لے سکون قلب بھی، جو چاہے دے سزا مجھے لیکن فصیلِ شہر سے اپنی نہ کر جدا مجھے بجلی کی زد میں آشیاں، نوکِ سناں پہ ہے جگر اب اور منتظر نہ رکھ، منزل مری دکھا مجھے دستک تھا دے رہا کوئی، دہلیز پر امنگ کی میں ہی اسیرِ ذات تھا، خود ہی نہ در کھلا مجھے میں محوِ دیدِ یار تھا، کچھ کہہ کے وہ گزر گیا...
  6. ذوالفقار نقوی

    پرانے رنگ میں اشک ِ غم ِ تازہ ملاتا ہوں

    پرانے رنگ میں اشک ِ غم ِ تازہ ملاتا ہوں در و دیوار پر کچھ عکس ِ نا دیدہ سجاتا ہوں مجھے صحرا نوردی راس آتی جا رہی ہے اب خرابات ِ چمن میں لالہ و سوسن اُگاتا ہوں مرے اِس شوق سے دریا، کنارے، سب شناسا ہیں جہاں طوفاں ہو موجوں کا، وہیں لنگر اُٹھاتا ہوں تمہاری نغمہ سنجی کی دکاں پر جو نہیں ملتا وہی اک...
  7. ذوالفقار نقوی

    دور تک اک سراب دیکھا ہے

    دور تک اک سراب دیکھا ہے وحشتوں کا شباب دیکھا ہے ضو فشاں کیوں ہیں دشت کے ذرے کیا کوئی ماہتاب دیکھا ہے بام و در پر ہے شعلگی رقصاں حُسن کو بے نقاب دیکھا ہے نامہ بر اُن سے بس یہی کہنا نیم جاں اک گلاب دیکھا ہے اب زمیں پر قدم نہیں ٹکتے آسماں پر عقاب دیکھا ہے میری نظروں میں بانکپن کیسا جاگتا ہوں...
  8. ذوالفقار نقوی

    کوئی تھا چاند ، یا پھر چاندنی بردار دیکھا ہے

    کوئی تھا چاند ، یا پھر چاندنی بردار دیکھا ہے نظر کو سامنے جس کے بہت لاچار دیکھا ہے کبھی جو سیر کی ، اپنے ہی اندر ڈوب کر میں نے تھکن سے چور اک سایہ پسِ دیوار دیکھا ہے مسلسل جھوجھتا رہتا ہوں میں امواجِ دریا سے ہمیشہ خود کو اِس جانب اُسے اُس پار دیکھا ہے نمو جس درد نے پائی، پلا جو میرے آنگن...
  9. ذوالفقار نقوی

    دھواں تھا چار سو اتنا کہ ہم بے انتہا روئے

    دھواں تھا چار سو اتنا کہ ہم بے انتہا روئے فلک محو ِ تماشا تھا، نہ کیوں تحت الثریٰ روئے عجب حدت مرے اطراف میں جلوہ فروزاں تھی کہ میری خاک سے شعلے لپٹ کر بار ہا روئے کسی پتھر کے سینے میں مری آواز یوں گونجے کہ اِس کے دل کے خانوں میں چھپا ہر اژدھا روئے سریرِحجت یزداں، زمیں پر کیا اُتر آیا ؟ اَنا...
  10. ذوالفقار نقوی

    زیرِ بامِ گنبدِ خضرا اذاں؟

    غزل زیرِ بامِ گنبدِ خضرا اذاں ؟ وہ بلالی صوت، وہ سامع کہاں کھوجتا ہے اَن گنت مسجود میں قل ھو اللہ احد کا سائباں بت تراشی چار سو ہے جلوہ گر دے گئی سب کی جبینوں کو نشاں یاسیت نے کرب کے در وا کئے خشک امیدوں کا گلشن ہے یہاں تو رہین ِ ِ خانہ ہائے اضطراب اٹھ رہا ہے تیرے چلمن سے دھواں ظلمتیں سایہ...
  11. ذوالفقار نقوی

    بے چینی کے لمحے، سانسیں پتھر کی

    بے چینی کے لمحے، سانسیں پتھر کی صدیوں جیسے دن ہیں، راتیں پتھر کی پتھرائی سی آنکھیں، چہرے پتھر کے ہم نے دیکھیں کتنی شکلیں پتھر کی گورے ہوں یا کالے، سر پر برسے ہیں پرکھی ہم نے ساری ذاتیں پتھر کی نیلامی کے در پر، بے بس، شرمندہ خاموشی میں لپٹی آنکھیں پتھر کی دل کی دھڑکن بڑھتی جائے سن سن کر شیشہ...
  12. ذوالفقار نقوی

    وقت کے پاس کہاں سارے حوالے ہوں گے

    "اجالوں کا سفر" سے..... ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﺎﺭﮮ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺯﯾﺐ ِ ﻗﺮﻃﺎﺱ ﻓﻘﻂ ﯾﺎﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﻟﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﮐﮭﻮﺟﺘﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮬﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻔﺎﮨﻢ ﮐﮯ ﺩﯾﮯ ﺍٓ ،ﭼﺮﺍﻏﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮩﻮ ﮈﺍﻝ ، ﺍُﺟﺎﻟﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ...
Top