طبیعت کوئی ٹونا کر گئی ہے
مجھے خود کا نشانہ کر گئی ہے
خرد کا بهی ہے اک طُرفہ تماشا
مخالف سب زمانہ کر گئی ہے
سمجھتا ہوں زباں اِن پتھروں کی
مجھے مٹی سیانا کر گئی ہے
جو اک تصویر محو ِ گفتگو تهی
وہ پتهر میں ٹهکانا کر گئی ہے
غلاف ِ تیرگی میں ہیں صحیفے
سیاہی باب کانا کر گئی ہے
ذوالفقار نقوی