جناب ذوالفقار زلفی کی ایک خوبصورت غزل آپ کی بصارتوں کی نظر۔
آرزو آنکھ دریچے میں کھڑی رہتی ہے
آمدِ یار کی ہر وقت پڑی رہتی ہے
ہمنشیں تو بھی مجھے چھوڑ گیا ہے تنہا
اور ابھی آگے مسافت بھی کڑی رہتی ہے
ایک دل ہے کہ بچھا جائے ترے قدموں میں
اور میری یہ انا ہے کہ اڑی رہتی ہے
اگلے پل کی تو...
یہی ہے میری قسمت کا تقاضا ٹوٹ جائوں گا
مجھے تو مت بنا اپنی تمنّا ٹوٹ جائوں گا
یہی تو سوچ کر میں نے بھی ملنے کا نہیں سوچا
دوبارہ مل کے بچھڑا تو زیادہ ٹوٹ جائوں گا
ابھی تک تو سنبھالا ہے مجھے تیرے حوالے نے
اگر یہ چھن گیا مجھ سے حوالہ ٹوٹ جائوں گا
سمجھتا ہوں تجھے اپنا مگر کٹھکا مجھے...
یُوں مرے سوچنے تک وقت نکل جاتا ہے
کیا کروں رنگِ جہاں روز بدل جاتا ہے
دے دیا اور اُمیدوں کا کھلونا دل کو
دیکھ بچوں کی طرح دل بھی بہل جاتا ہے
اب وہی ساتھ زمانے کا نبھا سکتا ہے
ہمنشیں! وقت سے پہلے جو سنبھل جاتا ہے
داستاں جب بھی اُسے میں نے سُنانا چاہی
باتوں باتوں میں مری بات بدل جاتا...