غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی متخلص بہ سوداؔ)
چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا
پردے میں تھا آفتاب دیکھا
کُچھ مَیں ہی نہیں ہوں، ایک عالم
اُس کے لیے یاں خراب دیکھا
بے جُرم و گناہ، قتلِ عاشِق
مذہب میں تِرے ثواب دیکھا
جِس چشم نے مُجھ طرف نظر کی
اُس چشم کو میں پُرآب دیکھا
بھوَلا ہے وہ دِل سے لُطف اُس کے...
جاڑے
(ساغر خیامی)
ایسی سردی نہ پڑی ایسے نہ دیکھے جاڑے
دو بجے دن کو اذاں دیتے تھے مرغ سارے
وہ گھٹا ٹوپ نظر آتے تھے دن کو تارے
سرد لہروں سے جمے جاتے تھے مے کے پیالے
ایک شاعر نے کہا چیخ کے ساغر بھائی
عمر میں پہلے پہل چمچے سے چائے کھائی
آگ چھونے سے بھی ہاتھوں میں نمی لگتی تھی
سات کپڑوں میں بھی...
غزل
(ابو المعانی مرزا عبدالقادر بیدل دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ)
مت پوچھ دل کی باتیں وہ دل کہاں ہے ہم میں
اُس تخم بے نشاں کا حاصل کہاں ہے ہم میں
موجوں کی زد میں آئی جب کشتیِ تعیّن
بحرِ فنا پکارا ساحل کہاں ہے ہم میں
خارج نے کی ہے پیدا تمثال آئینے میں
جو ہم سے ہے نمایاں داخل کہاں ہے ہم...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
یہ چال یا قیامت، یہ حُسن یا شرارا
چلتا ہے کس ٹھسک سے ٹک دیکھیو خدارا
غرفے کو جھانکیو تو کیسی چمک ہے اللہ
یہ نور یا تجلّی، خورشید یا ستارا
کس کا یہ نرگستاں، ترے شہید پیارے
زیرِ زمیں سے اُٹھ اُٹھ کرتے ہیں سب نظارا
ہر آن اس کا جلوہ ہے گا بسان دیگر
خسرو ہے نے سکندر،...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
اہلِ ایماں سوز کو کہتے ہیں کافر ہوگیا
آہ یارب رازِ دل ان پر بھی ظاہر ہوگیا
میں نے جانا تھا صحیفہ عشق کا ہے میرے نام
واہ یہ دیوان بھی نقلِ دفاتر ہوگیا
ناصحا بیزار دل سوزی سے تیری دور ہو
دل کو کیا روتا ہے لے جی بھی مسافر ہوگیا
درد سے محفوظ ہوں، درماں سے مجھ کو کام...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
چٹکیاں لے لے کر ستاتے ہو
اپنی باری کو بھاگ جاتے ہو
دمبدم منہ چڑاتے ہو اچھا
واہ کیا خوب منہ بناتے ہو
ہے بغل میں تمہاری میرا دل
ہاتھ کیا خالی اب دکھاتے ہو
دل میں آوے سو منہ پہ کہہ دیجے
کیا غلاموں سے بربراتے ہو
تھوڑے شہدے مرے ہیں دنیا میں
کیوں غریبوں کی جان کھاتے ہو...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
مری جان جاتی ہے یارو سنبھالو
کلیجے میں کانٹا لگا ہے نکالو
نہ بھائی مجھے زندگانی نہ بھائی
مجھے مار ڈالو، مجھے مار ڈالو
خدا کے لیئے اے مرے ہم نشینو
یہ بانکا جو جاتا ہے اس کو بلالو
نہ آوے اگر وہ تمہارے کہے سے
تو منت کرو گھیرے گھیرے بلالو
اگر کچھ خفا ہو کے گالیاں دے...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
آنکھ پھڑکی ہے یار آتا ہے
جان کو بھی قرار آتا ہے
دل بھی پھر آج کچھ دھڑکنے لگا
کوئی تو دل فگار آتا ہے
مجھ سے کہتا ہے سنیو او بدنام
تو یہاں بار بار آتا ہے
تیرے جو دل میں ہے سو کہہ دے صاف
مجھ سے کیا کچھ اُدھار آتا ہے
اب کے آیا تو سب سے کہہ دوں گا
لیجو میرا شکار آتا...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
دل بتوں سے کوئی لگا دیکھے
اس خدائی کا تب مزا دیکھے
کس طرح مارتے ہیں عاشق کو
ایک دن کوئی مار کھا دیکھے
راہ میں کل جو اس نے گھیر لیا
یعنی آنکھیں ذرا ملا دیکھے
مجھ سے شرما کے بولتا ہے کیا
اور جو کوئی آشنا دیکھے
اپنی اس کو خبر نہیں واللہ
سوز کو کوئی جا کے کیا دیکھے
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
دل مرا مجھ سے جو ملا دیوے
اس کی سب آرزو خدا دیوے
میں تو قربان اس کے ہو جاؤں
صورت اس کی کوئی دکھا دیوے
پھر جو دل دوں تو مجھ سے لیجے قسم
پر کوئی دل کو اس سے لا دیوے
عشق نے جیسا غم لگایا ہے
عشق کو کوئی غم لگا دیوے
درد نے جیسا دکھ دیا ہے مجھے
اس کی فریاد مرتضیٰ دیوے...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
ہزاروں مار ڈالے اور ہزاروں کو جلایا ہے
تری ان انکھڑیوں کو کس نے یہ جادو سکھایا ہے
مروں میں کس طرح مرنا کوئی مجھ کو سکھا دیوے
اجل شرما کے ٹل جاتی ہے جب سے وہ سمایا ہے
کوئی اب غم نہ کھاؤ خلق میں بےغم رہو یارو
کہ میں نے آپ اس سارے جہاں کے غم کو کھایا ہے
مجھے کیا عشق...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
خدا کو کفر اور اسلام میں دیکھ
عجب جلوہ ہے خاص و عام میں دیکھ
جو کیفیت ہے نرگس کی چمن میں
وہ چشمِ ساقی گلفام میں دیکھ
نظر کر زلف کے حلقے میں اے دل
گل خورشید پھولا شام میں دیکھ
خبر مجھ کو نہیں کچھ مرغ دل کی
تو اے صیاد اپنے دام میں دیکھ
پیالا ہاتھ سے ساقی کے لے سوز...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
ناصح تو کسی شوخ سے دل جا کے لگا دیکھ
میرا بھی کہا مان محبت کا مزا دیکھ
کچھ اور سوال اس کے سوا تجھ سے نہیں ہے
اے بادشہِ حُسن تو سوے فقرا دیکھ
ہر چند میں لائق تو نہیں تیرے کرم کے
لیکن نظرِ لطف سے ٹک آنکھ اُٹھا دیکھ
پچھتائے گا آخر کو مجھے مار کے اے یار
کہنے کو تو ہر...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
سچ کہیو قاصد آتا ہے وہ ماہ
الحمدللہ ، الحمدللہ
ہے دل کو لگتی پر کیوں کے مانوں
کھا جا قسم تو میاں تجھ کو واللہ
بعضوں کا مجھ پر یہ بھی گماں ہے
یعنی بتاں سے چلتا ہے بد راہ
جھوٹے کے منہ پر آگے کہوں کیا
استغفراللہ، استغفراللہ
کل اس طرف سے گزرا ستم گر
میں نے کہا کیوں...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
دل میں دیتا ہوں، تو شتاب نہ کر
جانِ من رحم کر، عتاب نہ کر
چاند سے مکھڑے کو مرے گل رو
غصّہ کھا کھا کے آفتاب نہ کر
ورنہ جل جائے گا جہان تمام
حق کی بستی ہے، بس خراب نہ کر
میں تو حاضر ہوں جو تو فرما دے
غیر کو لطف سے خطاب نہ کر
سوز کا دل میں چھین دیتا ہوں
مفت بر رہ تو...
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
جو ہم سے تو ملا کرے گا
بندہ تجھ کو دعا کرے گا
بوسہ تو دے کبھو مری جان
مولا تیرا بھلا کرے گا
ہم تم بیٹھیں گے پاس مل کر
وہ دن بھی کبھو خدا کرے گا
دل تیرے کام کا نہیں تو
بندہ پھر لے کے کیا کرے گا
پچھتائے گا مل کے سوز سے ہاں
ہم کہتے ہیں برا کرے گا
ہے شوخ مزاج سوز...