دشینت کمار

  1. محسن وقار علی

    دیکھ، دہلیز سے کائی نہیں جانے والی ۔۔۔۔۔۔دشینت کمار

    دیکھ، دہلیز سے کائی نہیں جانے والی یہ خطرناک سچائی نہیں جانے والی کتنا اچھا ہے کہ سانسوں کی ہوا لگتی ہے آگ اب ان سے بجھائی نہیں جانے والی ایک تالاب سی بھر جاتی ہے ہر بارش میں میں سمجھتا ہوں یہ کھائی نہیں جانے والی چیخ نکلی تو ہے ہونٹوں سے مگر مدھم ہے بند کمروں کو سنائی نہیں جانے...
  2. محسن وقار علی

    پرندے اب بھی پر تولے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔دشینت کمار

    پرندے اب بھی پر تولے ہوئے ہیں ہوا میں سنسنی گھولے ہوئے ہیں تمھیں کمزور پڑتے جا رہے ہو تمہارے خواب تو شعلے ہوئے ہیں غضب ہے سچ کو سچ کہتے نہیں وہ قرآن اور اپنشد کھولے ہوئے ہیں مزاروں سے دوائیں مانگتے ہو عقیدے کس قدر پولے ہوئے ہیں کبھی کشتی، کبھی بطخ، کبھی جل سیاست کے کئی چولے...
  3. محسن وقار علی

    بھوک ہے تو صبر کر روٹی نہیں تو کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔دشینت کمار

    بھوک ہے تو صبر کر روٹی نہیں تو کیا ہوا آج کل دہلی میں ہے زیر بحث یہ مدعا موت نے تو دھر دبوچا ایک چیتے کی طرح زندگی نے جب چھوا تو فاصلہ رکھ کر چھوا گڑگڑانے کا یہاں کوئی اثر ہوتا نہیں پیٹ بھرکر گالیاں دو، آہ بھرکر بد دعا کیا وجہ ہے پیاس زیادہ تیز لگتی ہے یہاں لوگ کہتے ہیں کہ...
  4. محسن وقار علی

    یہ روشنی ہے حقیقت میں ایک چھل، لوگو ۔۔۔۔۔۔دشینت کمار

    یہ روشنی ہے حقیقت میں ایک چھل، لوگو کہ جیسے جل میں جھلکتا ہوا محل، لوگو درخت ہیں تو پرندے نظر نہیں آتے جو مستحق ہیں وہی حق سے بے دخل، لوگو وہ گھر میں میز پہ کہنی ٹکائے بیٹھی ہے تھمی ہوئی ہے وہیں عمر آج کل ،لوگو کسی بھی قوم کی تاریخ کے اجالے میں تمہارے دن ہیں کسی رات کی نقل ،لوگو...
  5. محسن وقار علی

    کہیں پہ دھوپ کی چادر بچھا کے بیٹھ گئے ۔۔۔۔۔۔دشینت کمار

    کہیں پہ دھوپ کی چادر بچھا کے بیٹھ گئے کہیں پہ شام سرہانے لگا کے بیٹھ گئے جلے جو ریت میں تلوے تو ہم نے یہ دیکھا بہت سے لوگ وہیں چھٹپٹا کے بیٹھ گئے کھڑے ہوئے تھے الاووں کی آنچ لینے کو سب اپنی اپنی ہتھیلی جلا کے بیٹھ گئے دوکاندار تو میلے میں لٹ گئے یارو تماش بین دوکانیں لگا کے بیٹھ...
  6. محسن وقار علی

    مرنا لگا رہے گا یہاں جی تو لیجیے ۔۔۔۔۔۔دشینت کمار

    مرنا لگا رہے گا یہاں جی تو لیجیے ایسا بھی کیا پرہیز، ذرا سی تو لیجیے اب رند بچ رہے ہیں ذرا تیز رقص ہو محفل سے اٹھ لئے ہیں نمازی تو لیجیے پتوں سے چاہتے ہو بجیں ساز کی طرح پیڑوں سے پہلے آپ اداسی تو لیجیے خاموش رہ کے تم نے ہمارے سوال پر کر دی ہے شہر بھر میں منادی تو لیجیے یہ...
  7. محسن وقار علی

    چاندنی چھت پہ چل رہی ہوگی ۔۔۔۔۔۔دشینت کمار

    چاندنی چھت پہ چل رہی ہوگی اب اکیلی ٹہل رہی ہوگی پھر میرا ذکر آ گیا ہوگا برف سی وہ پگھل رہی ہوگی کل کا سپنا بہت سہانا تھا یہ اداسی نہ کل رہی ہوگی سوچتا ہوں کہ بند کمرے میں ایک شمع سی جل رہی ہوگی تیرے گہنوں سی کھنکھناتی تھی باجرے کی فصل رہی ہوگی "سائے میں دھوپ" سے انتخاب
  8. محسن وقار علی

    اس راستے کے نام لکھو ایک شام اور ۔۔۔۔۔۔دشینت کمار

    اس راستے کے نام لکھو ایک شام اور یا اس میں روشنی کا کرو انتظام اور آندھی میں صرف ہم ہی اکھڑ کر نہیں گرے ہم سے جڑا ہوا تھا کوئی ایک نام اور مرگھٹ میں بھیڑ ہے یا مزاروں میں بھیڑ ہے اب گل کھلا رہا ہے تمہارا نظام اور گھٹنوں پہ رکھ کے ہاتھ کھڑے تھے نماز میں آ جا رہے تھے لوگ ذہن میں...
  9. محسن وقار علی

    آج سڑکوں پر لکھے ہیں سیکڑوں نعرے نہ دیکھ ۔۔۔۔۔۔۔دشینت کمار

    آج سڑکوں پر لکھے ہیں سیکڑوں نعرے نہ دیکھ گھور اندھیرا دیکھ تو آکاش کے تارے نہ دیکھ ایک دریا ہے یہاں پر دور تک پھیلا ہوا آج اپنے بازوؤں کو دیکھ پتواریں نہ دیکھ اب یقیناً ٹھوس ہے دھرتی حقیقت کی طرح یہ حقیقت دیکھ لیکن خوف کے مارے نہ دیکھ وہ سہارے بھی نہیں اب جنگ لڑنی ہے تجھے کٹ چکے جو...
  10. محسن وقار علی

    یہ سارا جسم جھک کر بوجھ سے دہرا ہوا ہوگا۔۔۔۔۔۔دشینت کمار

    یہ سارا جسم جھک کر بوجھ سے دہرا ہوا ہوگا میں سجدے میں نہیں تھا آپ کو دھوکا ہوا ہوگا یہاں تک آتے آتے سوکھ جاتی ہیں کئی ندیاں مجھے معلوم ہے پانی کہاں ٹھہرا ہوا ہوگا غضب یہ ہے کہ اپنی موت کی آہٹ نہیں سنتے وہ سب کے سب پریشاں ہیں وہاں پر کیا ہوا ہوگا تمہارے شہر میں یہ شور سن سن کر تو لگتا ہے کہ...
  11. محسن وقار علی

    آج ویران اپنا گھر دیکھا۔۔۔۔۔۔۔دشینت کمار

    آج ویران اپنا گھر دیکھا تو کئی بار جھانک کر دیکھا پاؤں ٹوٹے ہوئے نظر آئے ایک ٹھہرا ہوا سفر دیکھا ہوش میں آ گئے کئی سپنے آج ہم نے وہی کھنڈر دیکھا راستہ کاٹ کر گئی بلی پیار سے راستہ اگر دیکھا نالیوں میں حیات دیکھی ہے گالیوں میں بڑا اثر دیکھا اس پرندے کو چوٹ آئی تو آپ نے ایک ایک پر دیکھا ہم...
  12. محسن وقار علی

    کھنڈر بچے ہوئے ہیں، عمارت نہیں رہی۔۔۔۔۔۔دشینت کمار

    کھنڈر بچے ہوئے ہیں، عمارت نہیں رہی اچھا ہوا کہ سر پہ کوئی چھت نہیں رہی کیسی مشعلیں لے کے چلے تیرگی میں آپ جو روشنی تھی وہ بھی سلامت نہیں رہی ہم نے تمام عمر اکیلے سفر کیا ہم پر کسی خدا کی عنایت نہیں رہی میرے چمن میں کوئی نشیمن نہیں رہا یا یوں کہو کہ برق کی دہشت نہیں رہی ہم کو پتہ نہیں تھا...
Top