لگی تھی دل میں ، بالآخر زباں تک آپہنچی
کہاں کی آگ تھی ، لیکن کہاں تک آپہنچی
ہوائے شوق ، مری خاک کو اُڑا لائی
بچھڑ گئی تھی ، مگر کارواں تک آپہنچی
وہ ہم سے رُوٹھ گئے اور بے سبب روٹھے
خدا کی شان! کہ نوبت یہاں تک آ پہنچی
یقین تو نہیں مجھ کو تری جفا کا ، مگر
یہ اک خلش مرے وہم و گماں تک آ پہنچی
ہم...
راہِ دشوار کو آسان بنا کر چلیے
شوق منزل ہے ، تو پھر ہوش میں آ کر چلیے
ہجر کی راہ میں یہ فرض ادا کر چلیے
اپنی پلکوں پہ چراغوں کو سجا کر چلیے
روشنی ہو تو چمک اٹھتی ہے ہر راہِ سیاہ
دو قدم چلیے ، مگر شمع جلا کر چلیے
خار ہی خار زمانے میں نظر آتے ہیں
اپنے دامن کو برائی سے بچا کر چلیے
آپ کی سست روی...