مل جائیں گے سکھ سبھی
دکھ میں جینا سیکھ لیں
ہوں گے حل سب مسئلے
غصہ پینا سیکھ لیں
آجائے گی شاعری
”جام و مینا“ سیکھ لیں
الفت دیں گے سب ، اگر
ترکِ کینہ سیکھ لیں
دل کا ہے یہ تجربہ
لب کو سینا سیکھ لیں
سکھلاتا ہے سَرسَری
دانا بینا! سیکھ لیں
وزن: فعلن فعلن فاعلن
شب تو ہے سکوں بخش ، مگر دل میں ہے ہلچل
بے ابر فضا ہے ، مگر آنکھوں میں ہیں بادل
آنکھیں جو ہوئیں چار سیاہی سے ہیں دوچار
یاں تیرگی غم کی ہے تو واں حسن کا کاجل
اک پل نہ ملا کیف ہمیں وصل سے پہلے
اب درد کی لذت میں مگن ہوگئے ہر پل
توبہ کے مقابل نہ ٹکیں کافر ادائیں
ہر حسنِ صنم دل کی نظر سے ہوا اوجھل...
قمر جب جگمگاتا ہے تو ان کی یاد آتی ہے
کوئی جب مسکراتا ہے تو ان کی یاد آتی ہے
خزاں میں گرتے پتوں سے شناسائی سی لگتی ہے
چمن جب لہلہاتا ہے تو ان کی یاد آتی ہے
پریشاں دل کے جیسی ٹہنیوں والے شجر پر جب
پرندہ چہچہاتا ہے تو ان کی یاد آتی ہے
نگاہیں بند دروازے کو یکدم تکنے لگتی ہیں
کوئی جب کھٹکھٹاتا ہے...
بچہ اور فانوس
(محاکات از ”بلبل اور جگنو“)
گہوارے میں اک رات تنہا
بچہ تھا کوئی اداس لیٹا
مشکل تھا ”اواں اواں“ بھی کرنا
رونے دھونے میں دن گزارا
دیتی تھی نہیں دکھائی امی
ہر اک جو سمجھتی ہے اشارہ
دیکھی بچے کی آہ و زاری
چھت سے فانوس نے پکارا
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
لٹکا ہوں اگرچہ کب سے الٹا...
کتنا اچھا صبر کا پھل ہے
کیسا پیارا صبر کا پھل ہے
کیلا ، تربوز ، آم اور چیکو
سب سے میٹھا صبر کا پھل ہے
ہونے لگا ہے ہر پھل مہنگا
ہر پل سستا صبر کا پھل ہے
ملتا ہے پھر ہر پھل اس کو
جس نے پایا صبر کا پھل ہے
دَم ہے اگر تو صبر کیا کر
یکدم ملتا صبر کا پھل ہے
ان اللہ مع الصابریں پڑھ
سب سے عمدہ صبر...
بچوں کے لیے
مشہور نظم ”ابو لائے موٹر کار“ کے شاعر سے معذرت کے ساتھ
ابو لائے کمپیوٹر
ہر کھیل اس کے ہے اندر
بجلی سے یہ چلتا ہے
موٹرکار سے اچھا ہے
کرنا ہو جو جلدی میں
کر دکھلائے چٹکی میں
آگے پیچھے لے کر جائے
سارے جگ کی سیر کرائے
کی بورڈ اس کی ہے چابی
سب کو اس کی بے تابی
تمام اولادِ آدم کی ہدایت کی کہانی ہے
یہ رب کی اپنے بندوں سے محبت کی کہانی ہے
بناتا ہے وہ جو بھی، اس پہ بے حد ناز کرتا ہے
وہ اس کی ہر برائی کونظر انداز کرتا ہے
نظر آئے کوئی خامی تو اس کو دور کرتا ہے
توجہ اس پہ دے کر پیار بھی بھرپور کرتا ہے
خدا ہم سب کا خالق ہے ، وہ ہم سے پیار کرتا ہے
اٹھا کر...
ہوتا ہے ہر اک ظلم گھٹا ٹوپ اندھیرا
چھٹ جائے گا جب ہوگا قیامت کا سویرا
معشوقِ حقیقی نے دیا عشقِ حقیقی
خود خالقِ دل کا ہے اب اس دل میں بسیرا
اپنا اسے سمجھو ، مگر اپنا ہی نہ سمجھو
یہ ملک ہمارا ہے ، نہ تیرا ہے نہ میرا
قرآن و احادیث و صحابہ پہ یقیں رکھ
بیکا نہیں کرسکتا کوئی بال بھی تیرا
گر نفس ہے...
محروم نہیں ہوتا خدا کا متلاشی
ہوتا ہے شفایاب دوا کا متلاشی
بھوکا نہیں رہتا ہے پرندہ وہ کسی دن
ہوتا ہے جو ہر روز غذا کا متلاشی
ملتا ہے ہمیں قصۂ موسیٰ میں یہ نکتہ
پاتا ہے تقرب کو ضیا کا متلاشی
قوت تو ہے ، پر قوتِ برداشت نہیں ہے
ہر اک ہے فقط مدح و ثنا کا متلاشی
تو خالقِ جسم و دل و جاں ہے مرے...
دلبر ہمارا ایک ہے ، دلساز الگ الگ
ہم نے بنائے اپنے ہیں ہمراز الگ الگ
غم اور خوشی کا طرز ہے ان کا جدا جدا
ہم نے اٹھایا ان کا ہر اک ناز الگ الگ
طور و سما پہ کوئی گیا ، کوئی عرش تک
پیغمبروں کو دی گئی پرواز الگ الگ
نطقِ حجر ہو ، شقِ قمر ہو ، قرآن ہو
سرکار لے کے آئے ہیں اعجاز الگ الگ
تلوار سے ،...
یہ نگاہِ قاتلِ روح و دل میں عجیب کچھ تو ضرور ہے!!!
مری لاش کے ہے قریب نعشِ رقیب ، کچھ تو ضرور ہے!!!
یہ محبتوں کے سمندروں کے جواہرات کی جستجو
ترے بحرِ عشق کا غوطہ زن اے حبیب! کچھ تو ضرور ہے
ارے بحرِ درد میں شعر کی یہ بحور ہم کو ملی نہیں
کہ مریضِ عشق نے پایا رنگِ ادیب کچھ تو ضرور ہے
ہمیں ہوش...
محترم جناب سید شہزاد ناصر صاحب نے یہاں فارسی غزل مع نثری ترجمہ پیش کی تھی، بندے نے اس کا منظوم ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے:
ہر رات چھانتا ہوں ترے در کی خاک میں
اور دل کو آبِ چشم سے کرتا ہوں پاک میں
ہوں گی یہ ہڈّیاں مری جس روز چور چور
پھربھی رکھوں گا دل میں ترا انہماک میں
تجھ سے ملن کی شب ہو تو...
غم مکن جانِ من! دان شد آنچہ شد
بارہا ایں سبق خوان شد آنچہ شد
دردِ جاں در دلم ، دردِ دل جان بُرد
شد دلم آنچہ شد ، جان شد آنچہ شد
در گلستان گلہا ہمہ فانیند
چوں شکست از تو گلدان شد آنچہ شد
دردِ مجنون صحرا نہ فہمید ہنوز
غم برو در بیابان شد آنچہ شد
نامِ درمان ہم ”درد افزون“ ہست
در رہِ عشق آسان شد...
اصولِ زندگی بتلا رہا ہوں غور سے سننا
”سنہری“ ہے یہ موقع زندگی بہتر بنانے کا
اگر ہے بند ”بجلی“ آپ کی ، جاؤ کسی کے گھر
بس اس سے وقت پہلے پوچھ لو ”بجلی“ کے جانے کا
بہت اچھی صفت ہے وقت کی پابندی کرنا بھی
سلیقہ ”واپڈا“ سے سیکھو بروقت آنے جانے کا
وہی مہماں ہے اچھا ”لوڈ شیڈنگ“ کے زمانے میں
ہو بس...
مکمل کتاب یہاں ملاحظہ فرمائیں
اکڑ شاہ
’’اکڑ شاہ‘‘ اک شخص نادان تھا
وہ اس بات سے لیکن انجان تھا
تھی اس کی طبیعت میں آوارگی
حماقت وہ کرتا تھا یک بارگی
وہ قرضوں کے مارے پریشان تھا
اصولِ تجارت سے انجان تھا
خریدار آتے تھے بس خال خال
کہ موسم کا رکھتا نہ تھا وہ خیال
کہ سردی میں وہ گولے گنڈے...
کیوں آج کل جناب کے تیور بدل گئے
اتنے حسیں گلاب کے تیور بدل گئے
دانتوں میں اب فراق کی ہڈی اٹک گئی
آنتوں میں اب کباب کے تیور بدل گئے
ان کو نشے میں اپنا ہی عاشق سمجھ لیا
جب عشق کی شراب کے تیور بدل گئے
بیوی کا سر کھلا ہے تو شوہر پہ ہیلمیٹ
پردہ ہے ، پر حجاب کے تیور بدل گئے
مجنون سورہا ہے تو...