غزل
(افتخار راغب)
ماضی کے ورق پلٹکے روئے
یادوں سے تِری لپٹ کے روئے
روئے خوب ٹوٹ کر کبھی ہم
خود میں بھی کبھی سمٹ کے روئے
چہرے سے خوشی ٹپک رہی تھی
ہم طرزِ جہاں سے ہٹ کے روئے
اِک سرسبز شاخ کی طرح ہم
اُلفت کے شجر سے کٹ کے روئے
ہم تھکنے لگے تو راستے بھی
قدموں سے لپٹ لپٹ کے...