غزل
راہ دُشوار جس قدر ہوگی
جُستُجو اور مُعتبر ہوگی
آدمی آدمی پہ ہنستا ہے
اور کیا ذِلَّتِ بشر ہوگی
پتّھروں پر بھی حرف آئے گا
جب کوئی شاخ بے ثمر ہوگی
جاگ کر بھی نہ لوگ جاگیں گے
زندگی خواب میں بسر ہوگی
حُسن بڑھ جائےگا تکلّم کا
جس قدر بات مُختصر ہوگی
اعجاز رحمانی
غزلِ
شُعاعِ مہْر سے خِیرہ ہُوئی نظر دیکھا
نہ راس آیا ہمیں جَلوۂ سَحر دیکھا
خوشی سے غم کو کُچھ اِتنا قرِیب تر دیکھا
جہاں تھی دُھوپ وہیں سایۂ شجر دیکھا
جَلا کے سوئے تھے اہلِ وفا چراغِ وفا
کُھلی جو آنکھ اندھیرا شباب پر دیکھا
خِزاں میں گائے تھے جس نے بہار کے نغمے
اُسے بہار میں محرومِ بال و...
غزلِ
ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے
یہ کون ہےجو مِرے گھر کے پاس رہتاہے
یہ اور بات کہ مِلتا نہیں کوئی اُس سے
مگر، وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے
جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سُورج
اُسی جگہ وہ سِتارہ شناس رہتا ہے
گُزر رہا ہُوں میں سوداگروں کی بستی سے
بدن پر دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے
لکھی ہے کس نے...