کیفی اعظمی
غزل
وہ بھی سراہنے لگے اربابِ فن کے بعد
دادِ سُخن ملی مجھے ترکِ سُخن کے بعد
دِیوانہ وار چاند سے آگے نِکل گئے
ٹھہرا نہ دِل کہِیں بھی تری انجمن کے بعد
ہونٹوں کو سی کے دیکھیے پچھتائیے گا آپ
ہنگامے جاگ اُٹھتے ہیں اکثر گھٹن کے بعد
غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اُس کی دُھوپ
قدرِ وطن...
غلافِ کعبہ تری عظمتوں کا کیا کہنا
عروسِ حُسنِ ازل کا لباسِ نور ہَے تُو
گناہگار تِرا کیوں نہ چوم لیں دامن
امینِ رازِ وفا، جلوہ زارِ طُور ہے تُو
کمالِ فرض کا پیکر ہے تیری ہستی بھی
کسی کی ذات میں خُود کو مٹادیا تُو نے
ہر آن سینہ سپر ہے حرم کی خدمت میں
دلوں میں نقشِ محبت جمادیا تو نے
یہ تیرا...
کیا بتائیں عشق پر کیا کیا ستم ڈھائے گئے
چار سو پرچم گریبانوں کے لہرائے گئے
کتنے نالے ہوگئے گم قہقہوں کی گونج میں
کتنے نغمے ہیں جو غم کی تال پر گائے گئے
دوستوں کی دوستی نے بھی دئے ہیں کچھ فریب
کچھ حسین دھوکے مگر دانستہ بھی کھائے گئے
جعفر و صادق کی غداری بھی زندہ کی گئی
قاسم و محمود کے قصے بھی...