غزل
ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے
رَگوں میں خُون نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے
یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بَوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے، تو گھر گئے ہوتے
نئے شعوُر کو جِن کا شِکار ہونا تھا
وہ حادثے بھی ہَمَیں پر گُزر گئے ہوتے
ہمی نے رَوک لِئے سر یہ تیشۂ اِلزام
وگرنہ شہر میں کِس کِس کے سر...
غزل
اُمید فاضلی
اے دلِ خوُد ناشناس ایسا بھی کیا
آئینہ اور اِس قدر تنہا بھی کیا
اُس کو دیکھا بھی، مگر دیکھا بھی کیا
عرصۂ خواہش میں اِک لمحہ بھی کیا
درد کا رشتہ بھی ہے تجھ سے بہت
اور پھر یہ درد کا رشتہ بھی کیا
کھینچتی ہے عقل جب کوئی حصار
دُھوپ کہتی ہے کہ یہ سایہ بھی کیا
پُوچھتا ہے...