غزل
تیری صُورت جو، دِل نشیں کی ہے!
آشنا ، شکل ہر حَسِیں کی ہے
حُسن سے دِل لگا کے، ہستی کی!
ہر گھڑی ہم نے آتشِیں کی ہے
صُبح ِگُل ہو، کہ شامِ میخانہ
مدح ، اُس رُوئے نازنِیں کی ہے
شیخ سے بے ہراس ملتے ہیں
ہم نے، توبہ ابھی نہیں کی ہے
ذکرِ دوزخ بیانِ حُور و قصُور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
اشک...
مُلاقات
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اِس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بَکف سِتاروں
کے کارواں گھِر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب اِس کے سائے
میں اپنا سب نُور رَو گئے ہیں
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
مگر اِسی رات کے شجر سے
یہ چند لمحوں کے زرد...
غزل
شرح ِبے دردئ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی، دِل کی مدارات نہ ہونے پائی
پِھر وہی وعدہ، جو اِقرار نہ ہونے پایا !
پِھروہی بات، جو اثبات نہ ہونے پائی
پِھر وہ پروانے جنھیں اذنِ شہادت نہ مِلا
پِھر وہ شمعیں، کہ جنھیں رات نہ ہونے پائی
پِھر وہی جاں بہ لَبی، لذَّتِ مے سے پہلے!
پِھر وہ محفِل، جو...
سِتم سِکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتا
صنم دِکھلائیں گے راہِ خدا ایسے نہیں ہوتا
گِنو سب حسرتیں جو خوں ہُوئی ہیں تن کے مقتل میں
مِرے قاتل حِسابِ خوں بہا ایسے نہیں ہوتا
جہانِ دِل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا
ہر اِک شب، ہر گھڑی گُزرے قیامت یُوں...
سُرُود
موت اپنی، نہ عمل اپنا، نہ جِینا اپنا
کھو گیا شورشِ گِیتی میں قرِینہ اپنا
ناخُدا دُور، ہَوا تیز ، قرِیں کامِ نہنگ
وقت ہے پھینک دے لہروں میں سفِینہ اپنا
عرصۂ دہر کے ہنگامے تہِ خواب سہی
گرم رکھ آتشِ پیکار سے سِینہ اپنا
ساقِیا! رنج نہ کر جاگ اُٹھے گی محفِل
اور کچھ دیر اُٹھا رکھتے ہیں...
فیض احمد فیض اور میں
(ابن انشا)
فیض صاحب کے متعلق کچھ لکھتے ہوئے مجھے تامل ہوتا ہے۔ دنیا حاسدانِ بد سے خالی نہیں۔ اگر کسی نے کہہ دیا کہ ہم نے تو اس شخص کو کبھی فیض صاحب کے پاس اٹھتے بیٹھتے نہیں دیکھا تو کون اس کا قلم پکڑ سکتا ہے۔ احباب پر زور اصرار نہ کرتے تو یہ بندہ بھی اپنے کوشۂ گمنامی...