جلوۂ عشق حقیقت تھی حسن مجاز بہانہ تھا
شمع جسے ہم سمجھے تھے شمع نہ تھی پروانہ تھا
شعبدے آنکھوں کے ہم نے ایسے کتنے دیکھے ہیں
آنکھ کھلی تو دنیا تھی بند ہوئی افسانہ تھا
عہد جوانی ختم ہوا اب مرتے ہیں نہ جیتے ہیں
ہم بھی جیتے تھے جب تک مر جانے کا زمانہ تھا
دل اب دل ہے خدا رکھے ساقی کو مے خانے کو...
غزل
(شوکت علی خاں فانی بدایونی)
امیدِ کرم کی ہے ادا، میری خطا میں
یہ بات نکلتی ہے مری لغزشِ پا میں
سمجھو تو غنیمت ہے، مرا گریۂ خونیں
یہ رنگ ہے پھولوں میں، نہ یہ بات حنا میں
جھک جاتے ہیں سجدے میں سر اور پھر نہیں اٹھتے
کیا سحر ہے کافر! ترے نقشِ کفِ پا میں
وہ جانِ محبت ہیں، وہ ایمانِ...
جلوہ گاہِ نازِ جاناں جب مرا دل ہو گیا
سامنا فانی مجھے دل کا بھی مشکل ہو گیا
مژدہِ تسکیں سے بے تابی کے قابل ہو گیا
دل پہ جب تیری نگاہیں جم گئیں دل ہو گیا
کر کے دل کا خون کیا بے تابیاں کم ہو گئیں
جو لہو آنکھوں سے دامن پر گرا دل ہو گیا
سن کے تیرا نام آنکھیں کھول دیتا تھا کوئی
آج تیرا نام لے کر...
ایکسیلینس پروگرام (Excellence Program)
آج صبح میں دبئی گورنمنٹ ایکسیلینس پروگرام (Dubai Government Excellence Program) کے بارے میں پڑھا۔ دبئی کی حکومت اپنے عوام کوعمدہ کارکردگی پرابھارنے کیلئے اس پروگرام کو ترتیب دیا اور پھر وہاں کے لوگ عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دبئی کو عروج کے منازل...
غزل
آپ سے شرح ِآرزُو تو کریں
آپ تکلیف ِگفتگو تو کریں
وہ نہیں ہیں جو، وہ کہیں بھی نہیں
آئیے دِل میں جُستجُو تو کریں
اہلِ دُنیا مجھے سمجھ لیں گے
دِل کسی دِن ذرا لہُو تو کریں
رنگ و بُو کیا ہے ،یہ تو سمجھا دو
سیرِدُنیائے رنگ و بُو تو کریں
وہ اُدھر رُخ اِدھر ہے میّت کا
لوگ فانؔی کو قِبلہ رُو تو...
غزل
وفا بیگانۂ رسمِ بیاں ہے
خموشی اہلِ دِل کی داستاں ہے
مِرا دِل ہے کسی کی یاد کا نام
محبّت میری ہستی کا نِشاں ہے
تماشا چاہیے تابِ نظر دے
نگاہِ شوق ہےاور رائیگاں ہے
مُسلّم پُرسِشِ بیمار، لیکن !
وہ شانِ چارہ فرمائی کہاں ہے
تِرا نقشِ قدم ہے ذرّہ ذرّہ
زمِیں کہتے ہیں جس کو، آسماں ہے
بچے گی...
غزل
وہ جی گیا جو عِشق میں جی سے گُزر گیا
عیسیٰ کو ہو نَوِید کہ بیمار مر گیا
آزاد کُچھ ہُوئے ہیں اَسِیرانِ زندگی
یعنی جمالِ یار کا صدقہ اُتر گیا
دُنیا میں حالِ آمد و رفتِ بَشر نہ پُوچھ
بے اختیار آ کے رہا ، بے خبر گیا
شاید کہ شام ِہجر کے مارے بھی جی اُٹھیں
صُبحِ بہار ِحشر کا چہرہ اُتر گیا
آیا...
غم مجسّم نظر آیا ، تو ہم اِنساں سمجھے
برق جب جِسم سے وابسطہ ہُوئی ، جاں سمجھے
شوق کی گرمیِ ہنگامہ کو وحشت جانا
جمع جب خاطرِ وحشت ہُوئی، ارماں سمجھے
حکمِ وحشت ہےکہ، زِنداں کو بھی صحرا جانو
دِل وہ آزاد کہ صحرا کو بھی زِنداں سمجھے
فانؔی اِس عالَمِ ظاہر میں سراپا غم تھا !
چُھپ گیا خاک میں تو...
غزل
عِشق نے دِل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی
درد دُنیا میں جب آیا، تو دَوا بھی آئی
دِل کی ہستی سے کِیا عِشق نے آگاہ مجھے
دِل جب آیا تو ، دَھڑکنے کی صَدا بھی آئی
صدقے اُتریں گے ، اسیرانِ قفس چھُوٹے ہیں
بجلیاں لے کے نشیمن پہ گھٹا بھی آئی
ہاں نہ تھا بابِ اثر بند، مگر کیا کہیے
آہ پہنچی تھی،...
غزل
سمائیں آنکھ میں کیا شُعبدے قیامت کے
مِری نظر میں ہیں جَلوے کسی کی قامت کے
یہاں بَلائے شبِ غم، وہاں بہارِ شباب !
کسی کی رات، کسی کے ہیں دِن قیامت کے
سِتارے ہوں تو سِتارے، نہ ہوں تو برقِ بَلا !
چراغ ہیں تو یہ ہیں بےکسوں کی تُربت کے
اُلٹ دِیا غمِ عِشقِ مجاز نے پردہ
حجابِ حُسن میں...
غزل
ہر گھڑی اِنقلاب میں گُزری
زندگی کِس عذاب میں گُزری
شوق تھا مانَعِ تجلّیِ دوست !
اُن کی شوخی حِجاب میں گُزری
کَرَمِ بے حِساب چاہا تھا
سِتَمِ بے حِساب میں گُزری
ورنہ دُشوار تھا سُکونِ حیات
خیر سے اِضطراب میں گُزری
رازِ ہستی کی جُستجُو میں رہے
رات تعبیرِخواب میں گُزری
کُچھ کٹی ہمّتِ...
جانتا ہوں کہ مرا دل مرے پہلو میں نہیں
پھر کہاں ہے جو ترے حلقۂ گیسو میں نہیں
ایک تم ہو تمہارے ہیں پرائے دل بھی
ایک میں ہوں کہ مرا دل مرے قابو میں نہیں
دور صیّاد، چمن پاس، قفس سے باہر
ہائے وہ طاقتِ پرواز کہ بازو میں نہیں
دیکھتے ہیں تمہیں جاتے ہوئے اور جیتے ہیں
تم بھی قابو میں نہیں، موت بھی...
fani badayuni
urdupoetry
اردو شاعری
اردو کلاسیکی شاعری
شوکت علی خان فانی بدایونی
طارق شاہ
غزل
فانیفانی بدایونی
فرخ منظور
کلاسیکل شاعری
کلاسیکی شاعری
کلاسیکی شاعری اردو
غزلِ
لب منزلِ فُغاں ہے، نہ پہلوُ مکانِ داغ
دِل ره گیا ہے نام کو باقی نشانِ داغ
اے عِشق! خاکِ دِل پہ ذرا مشقِ فِتنہ کر
پیدا کر اِس زمِیں سے کوئی آسمانِ داغ
دِل کُچھ نہ تها تمھاری نظر نے بنا دِیا
دُنیائے درد، عالَمِ حسرت، جہانِ داغ
پہلے اجَل کو رُخصتِ تلقینِ صبْر دے
پهر آخری نِگاہ سے...
غزلِ
فانی بدایونی
ہوش ہستی سے تو بیگانہ بنایا ہوتا
کاش تُو نے مجھے دِیوانہ بنایا ہوتا
دِل میں اِک شمْع سی جلتی نظر آتی ہے مجھے
آ کے اِس شمْع کو پروانہ بنایا ہوتا
تیرے سجدوں میں نہیں شانِ محبّت زاہد
سر کو خاکِ دَرِ جانانہ بنایا ہوتا
دِل تِری یاد میں آباد ہے اب تک، ورنہ
غم نے کب کا...
یوں نظمِ جہاں درہم و برہم نہ ہوا تھا
ایسا بھی ترے حسنِ کا عالم نہ ہوا تھا
پھر چھیڑ دیا وسعتِ محشر کی فضا نے
سودا ترےوحشی کا ابھی کم نہ ہُوا تھا
یا عشرتِ دو روزہ تھا یا حسرتِ دیروز
وہ لمحۂ ہستی جو ابھی غم نہ ہوا تھا
صد حیف وہ گُل ہو کفِ گُل چیں میں جو اب تک
آزردۂ آویزشِ شبنم نہ ہوا تھا
قاتل...
غزلِ
شوکت علی خاں فانی بدایونی
اِک سرگزشتِ غم ہے کہ اب کیا کہیں جسے
وہ وارداتِ قلبِ تمنّا کہیں جسے
اب زندگی ہے نام اُسی اُمّیدِ دُور کا
ٹُوٹے ہوئے دِلوں کا سہارا کہیں جسے
دل حاصلِ حیات ہے اور دل کا ماحصل
وہ بے دلی، کہ جانِ تمنّا کہیں جسے
کیفیّتِ ظہُور فنا کے سِوا نہیں
ہستی کی...
غزلِ
شوکت علی خاں فانی بدایونی
اُن کی کسی ادا پہ جفا کا گماں نہیں
شوخی ہے جو بسلسلۂ امتحاں نہیں
دیکھا نہیں وہ جلوہ جو دیکھا ہُوا سا ہے
اِس طرح وہ عیاں ہیں، کہ گویا عیاں نہیں
نا مہربانیوں کا گِلہ تم سے کیا کریں !
ہم بھی کچھ اپنے حال پہ اب مہرباں نہیں
اب تک لگاوٹیں ہی سہی، لاگ تو نہیں...
فانی بدایونی
بیداد کے خُوگر تھے، فریاد تو کیا کرتے !
کرتے، تو ہم اپنا ہی، کچھ تم سے گلہ کرتے
تقدیرِ محبّت تھی، مر مر کے جئے جانا
جینا ہی مُقدّر تھا، ہم مر کے بھی کیا کرتے
مُہلت نہ مِلی غم سے، اتنی بھی کہ حال اپنا !
ہم آپ کہا کرتے، ہم آپ سُنا کرتے
نادم اُسے چاہا تھا ، جاں اُس پہ فِدا...
غزلِ
فانی بدایونی
بِجلیاں ٹُوٹ پڑیں جب وہ مُقابِل سے اُٹھا
مِل کے پلٹی تھیں نِگاہیں کہ دُھواں دِل سے اُٹھا
جَلوہ محسُوس سہی، آنکھ کو آزاد تو کر
قید آدابِ تماشا بھی تو محفِل سے اُٹھا
پھر تو مضرابِ جنُوں، سازِ انا لیلےٰ چھیڑ
ہائے وہ شور انا القیس ، کہ محمِل سے اٹھا
اِختیار ایک ادا تھی مِری...
حُسن فانی ہے، جوانی کے فسانے تک ہے
پر یہ کمبخت محبت تو زمانے تک ہے
وہ ملے گا تو شناسائی دلوں تک ہو گی
اجنبیّت تو فقط سامنے آنے تک ہے
شاعری پیروں، فقیروں کا وظیفہ تھا کبھی
اب تو یہ کام فقط نام کمانے تک ہے
دشت میں پاؤں دھرا تھا کبھی وحشت کے بغیر
اب وہی ریت مِرے آئینہ خانے تک ہے
چاند گردُوں کو...