یا رب مری حیات سے غم کا اثر نہ جائے
جب تک کسی کی زلف پریشاں سنور نہ جائے
وہ آنکھ کیا جو عارض و رخ پر ٹھہر نہ جائے
وہ جلوہ کیا جو دیدہ و دل میں اتر نہ جائے
میرے جنوں کو زلف کے سائے سے دور رکھ
رستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے
میں آج گلستاں میں بلا لوں بہار کو
لیکن یہ چاہتا ہوں خزاں روٹھ...
ایسا بننا سنورنا مُبارک تُمہیں
کم سے کم اِتنا کہنا ہمارا کرو
چاند شرمائے گا چاندنی رات میں
یُوں نہ زُلفوں کو اپنی سنوارا کرو
یہ تبسّم یہ عارض یہ روشن جبِیں
یہ ادا یہ نِگاہیں یہ زُلفیں حسِیں
آئینے کی نظر لگ نہ جائے کہیں
جانِ جاں اپنا صدقہ اُتارا کرو
دِل تو کیا چیز ہے جان سے جائیں گے
موت آنے سے...