فریاد آذر

  1. پ

    غزل-لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی کی مسلسل قیامت میں ہیں! -ڈاکٹر فریاد آذر

    غزل لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی کی مسلسل قیامت میں ہیں! ہم ازل سے چمکتی ہوئی خواہشوں کی طلسمی حراست میں ہیں اس کے کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ زندگی آخرت کا عکس ہے اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم لوگ دوزخ میں ہیں یا کہ جنت میں ہیں تجھ سے بچھڑے تو آغوشِ مادر میں، پھر پانووں پر، پھر سفر در سفر دیکھ...
  2. چاند بابو

    فریاد آزر کا خوبصورت کلام

    اُس سے نالاں تھے ”فرشتے‘ وہ خفا کس سے تھا اختلاف اس کا خداوں کے سوا کس سے تھا یوں تو محفوظ رہے ذہن میں لاکھوں الفاظ یا د آ یا نہیں دروازہ کھل ا کس سے تھا میرے بارے میں بڑی رائے غلط تھی اُس کی جانے وہ میرے تصور میں ملا کس سے تھا جانے تا عمر اُسے کس نے اکیلا رکھا جانے...
  3. الف عین

    فریاد آذر کی غزل۔ محمد وارث کی فرمائش پر

    تشنگی ایسے لبوں کی کیا بجھا پاتا فرات مدتوں سے خود تھا جن کی دید کا پیاسا فرات تشنگی کو آپ اپنا امتحاں مقصود تھا ورنہ پاکیزہ لبوں تک خود ہی آجاتا فرات پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آگیا کربلا، خوں ریزی، کوفہ، تشنگی، صحرا، فرات اب بھی ہیں صحرا کی آنکھوں سے یونہی آنسو رواں نام ان کو دے دیے...
Top