فریاد آزر

  1. شیزان

    آزما کر عالمِ ابلیس کے حربے جدید۔ فریاد آزر

    آزما کر عالمِ ابلیس کے حربے جدید ہوگئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید ننھا کمپیوٹر، قلم، کاغذ، کتابوں کی جگہ اس قدر سوچا نہ تھا ہو جائیں گے بچے جدید دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِقدیم رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید ہو گیا محروم بینائی سے بھی اب آخرش دیکھتا تھا رات دن وہ آدمی سپنے...
  2. کاشفی

    مرے وجود کو پھرکرکے پُرملاں گیا - فریاد آزر

    غزل (فریاد آزر) مرے وجود کو پھرکرکے پُرملاں گیا لو ایک اور مری زندگی کا سال گیا ترے خلوص میں کوئی کمی نہیں تھی مگر ترا خلوص مصیبت میں مجھ کو ڈال گیا میں ایک پتنگا تھا، آزاد زندگی تھی مری وہ بُن کے گرد مرے، مکڑیوں کا جالا گیا ہزاروں پریاں تصّور میں رقص کرنے لگیں جب آنیوالے دنوں کی طرف خیال...
  3. کاشفی

    نہ جانے آگ لگا کر کدھر گئے اپنے - فریاد آزر

    غزل (فریاد آزر) نہ جانے آگ لگا کر کدھر گئے اپنے لگے بجھانے کہ ہمسائے، ڈر گئے اپنے میں اپنی لاش کو تنہا ہی دفن کرلوں گا کہ تم بھی جاؤ، سبھی لوگ گھر گئے اپنے یہ روزگار کی آندھی بھی خوب آندھی ہے ذرا سی تیز ہوئی تھی، بکھر گئے اپنے عجیب لوگ تھے وہ بھی کہ چند لمحوں میں مرے قلم میں خیالات بھر گئے...
  4. کاشفی

    عظمتِ آدمی کو سمجھا کر - فریاد آزر

    غزل (فریاد آزر) عظمتِ آدمی کو سمجھا کر میری آوارگی کو سجدا کر مجھ سے پتھر یہ کہہ کے بچنے لگے تم نہ سنبھلو گے ٹھوکریں کھا کر میں تو اب ہاتھ آنے والا نہیں ہاں وہ روتا ہے مجھ کر ٹھکرا کر توڑنے والا جب ملا نہ کوئی رہ گئے پھول کتنے مرجھا کر یا حقیقت کا رنگ دے اس کو یا مرے خواب میں نہ آیا کر رو...
  5. کاشفی

    ہوا کے حکم کی تعمیل ہونے والی ہے - فریاد آزر

    غزل (فریاد آزر) ہوا کے حکم کی تعمیل ہونے والی ہے گل احتجاج کی قندیل ہونے والی ہے زمیں پہ آمدِ جبریل ختم ہو بھی چکی ندائے صورِ سرافیل ہونے والی ہے ہزاروں ابرہہ لشکر سجا رہے ہیں تو کیا ہوائے سبز ابابیل ہونے والی ہے میں تھک چکا بھی ہوں اور آخری صدا میری انہیں خلاؤں میں تحلیل ہونے والی ہے اِک...
  6. ا

    صدیوں کا بن باس لکھے گی اب کے برس بھی - ڈاکٹر فریاد آزر

    صدیوں کا بن باس لکھے گی اب کے برس بھی تنہائی اتہاس لکھے گی اب کے برس بھی اب کے برس بھی جھوٹ ہمارا پیٹ بھرے گا سچائی افلاس لکھے گی اب کے برس بھی اب کے برس بھی دنیا چھینی جائے گی ہم سے مجبوری سنیاس لکھے گی اب کے برس بھی آس کے سورج کو لمحہ لمحہ ڈھونڈیں گے اور تاریکی یاس لکھے گی اب کے...
  7. کاشفی

    کلام کرتا تھا میں اُس سے دعا کے لہجے میں - ڈاکٹر فریاد آزر

    غزل کلام کرتا تھا میں اُس سے دعا کے لہجے میں مگر وہ بول پڑا تھا خدا کے لہجے میں زمین پھر اسی مرکز پہ جلد آجائے ندائے "کُن" میں سنوں ابتدا کے لہجے میں پرندے لوہے کے، کنکر بموں کے پھینکتے ہیں عذاب ہم پہ ہے کیوں ابرہہ کے لہجے میں قدم ادھر ہی اٹھے جارہے ہیں جس جانب سموم بول رہی ہے...
Top