غزل
فِراق گورکھپُوری
تِرا جمال بھی ہے آج، اِک جہانِ فِراق
نِگاہِ لُطف و کرم خود ہے تر جمانِ فِراق
فضا جہانِ محبّت کی جِن سے تھی رنگِیں
تجھے بھی یاد کچھ آئے وہ، شادمانِ فِراق
نظر بچا کے جنھیں برقِ حُسن چھوڑ گئی
مِلے نہ زخمِ نہاں میں بھی وہ نشانِ فِراق
نِگاہِ ناز تِری تھی تمام قَول و قَسَم
کسی...
غزل
ٹھان لی اُس نے منہ چھپانے کی
بچ گئی آبرو زمانے کی
آگئی رات تیرے جانے کی
اب نہیں صُبح مُسکرانے کی
گیسُوئے یار سے جو ہو کے گئیں
وہ ہَوائیں نہیں اب آنے کی
پُھوٹتی پَو بھی پا سکی نہ ادا
زیرِ لب تیرے مُسکرانے کی
حُسن آیا نہیں شباب پر، اور
آنکھ پڑنے لگی زمانے کی
سمٹ آئی ہے اُس کی آنکھوں...
آج سے کوئی پینتالیس برس پہلے کی بات ہے الہ آباد کہ ایک مشاعرے میں میرزا یگانہ نے اپنی تازہ ترین فارسی غزل سنائی جس کی شہرت اب تک اُردو دنیا کے خاص خاص حلقوں میں ہے اس زمین یا اسی بحر میں قافیہ بدل کر صرف تنہا کی ردیف کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان میں کہیں اُردو غزلیں کہیں گئیں مگر اُنھیں میرزا...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں
آج بھی آنکھ لگائے رسن و دار سے ہیں
مُدّتیں قید میں گُذرِیں، مگر اب تک صیّاد
ہم اسِیرانِ قفس تازہ گرفتار سے ہیں
کیا کہیں وہ تِرے اقرار، کہ اقرار سے تھے
کیا کریں یہ تِرے انکار، کہ انکار سے ہیں
کُچھ نہ جِینے میں ہی رکّھا ہے، نہ مرجانے...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
یُوں تو نہ چارہ کار تھا جان دِیے بغیر بھی
عُہدہ بَرا نہ ہوسکا عِشق جیے بغیر بھی
دیکھ یہ شامِ ہجر ہے، دیکھ یہ ہے سکُونِ یاس
کاٹتے ہیں شَبِ فِراق صُبح کیے بغیر بھی
گو کہ زباں نہیں رُکی، پِھر بھی نہ کُچھ کہا گیا
دیکھ سکُوتِ عِشق آج، ہونٹ سیے بغیر بھی
تیرے نِثار ساقیا...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
جنُونِ کارگر ہے، اور مَیں ہُوں
حیاتِ بے خَبر ہے، اور مَیں ہُوں
مِٹا کر دِل، نِگاہِ اوّلیں سے!
تقاضائے دِگر ہے، اور مَیں ہُوں
مُبارک باد ایّامِ اسِیری!
غمِ دِیوار و در ہے، اور مَیں ہُوں
تِری جمعیّتیں ہیں، اور تُو ہے
حیاتِ مُنتشر ہے، اور مَیں ہُوں
ٹِھکانا ہے کُچھ اِس...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
دہنِ یار یاد آتا ہے
غُنچہ اِک مُسکرائے جاتا ہے
رہ بھی جاتی ہے یاد دشمن کی
دوست کو دوست بُھول جاتا ہے
پَیکرِ ناز کی دَمک، جیسے
کوئی دِھیمے سُروں میں گاتا ہے
جو افسانہ وہ آنکھ کہتی ہے
وہ کہِیں ختم ہونے آتا ہے
دلِ شاعر میں آمدِ اشعار
جیسے تُو سامنے سے جاتا ہے
مَیں تو...
غزل
وہ عالم ہوتا ہے مجھ پر جب فکرِ غزل میں کرتا ہوں
خود اپنے خیالوں کو ہمدم میں ہاتھ لگاتے ڈرتا ہوں
بے جان لکیریں بول اٹھتی ہیں نقطے لَو دے اٹھتے ہیں
اس نقش و نگارِ ہستی میں وہ رنگِ محبت بھرتا ہوں
افسردہ و تیرہ فضاؤں میں گرمیِ پرِ جبریل ہوں میں
سوتے سنسار کے سینہ میں لے کر آیات اترتا ہوں...
غزل
غزل کے ساز اٹھاؤ بڑی اُداس ہے رات
نوائے میرؔ سناؤ بڑی اُداس ہے رات
نوائے درد میں اک زندگی تو ہوتی ہے
نوائے درد سناؤ بڑی اُداس ہے رات
اداسیوں کے جو ہم راز و ہم نفس تھے کبھی
انھیں نہ دل سے بھلاؤ بڑی اُداس ہے رات
جو ہو سکے تو ادھر کی بھی راہ بھول پڑو
صنم کدے کی ہواؤ بڑی اُداس ہے رات...
غزل
فِراقؔ گورکھپُوری
یہ تو نہیں کہ غم نہیں!
ہاں میری آنکھ نم نہیں
تم بھی تو تم نہیں ہو آج!
ہم بھی تو آج، ہم نہیں
نشّہ سنبھالے ہےمجھے
بہکے ہُوئے قدم نہیں
قادرِ دو جہاں ہے، گو !
عشق کے دَم میں دَم نہیں
موت، اگرچہ موت ہے
موت سے زیست کم نہیں
کِس نے کہا یہ تُم سے خضر!
آبِ حیات سم نہیں
کہتے ہو...
غزل
(فراق گورکھپوری)
زمیں بدلی فلک بدلا مذاق زندگی بدلا
تمدن کے قدیم اقدار بدلے آدمی بدلا
خدا و اہرمن بدلے وہ ایمان دوئی بدلا
حدود خیر و شر بدلے مذاق کافری بدلا
نئے انسان کا جب دور خود نا آگہی بدلا
رموز بے خودی بدلے تقاضائے خودی بدلا
بدلتے جا رہے ہیں ہم بھی دنیا کو بدلنے میں
نہیں بدلی...
غزل
فراقؔ گورکھپوری
نِگاہِ ناز نے پردے اُٹھائے ہیں کیا کیا
حجاب اہلِ محبّت کو آئے ہیں کیا کیا
جہاں میں تھی بس اِک افواہ تیرے جلوؤں کی
چراغِ دیر و حَرَم جِھلِملائے ہیں کیا کیا
نثار نرگسِ مے گُوں، کہ آج پیمانے!
لبوں تک آتے ہُوئے تھر تھرائے ہیں کیا کیا
کہیں چراغ، کہیں گُل، کہیں دِلِ برباد
خِرامِ...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
عِشق فُسردہ ہی رہا ،غم نے جَلا دِیا تو کیا
سوزِ جِگر بڑھا تو کیا، دِل سے دُھواں اُٹھا تو کیا
پھر بھی تو شبنمی ہے آنکھ، پھر بھی تو ہَونٹ خُشک ہیں
زخمِ جِگر ہنسا تو کیا ، غُنچۂ دِل کِھلا تو کیا
پھر بھی تو اہلِ غم تِرے، رازِ سُکوں نہ پا سکے!
تُو نے نظر کی لَورِیاں دے کے سُلا...
غزل
اب اکثر چپ چپ سے رہیں ہیں یونہی کبھو لب کھولیں ہیں
پہلے فراقؔ کو دیکھا ہوتا اب تو بہت کم بولیں ہیں
دن میں ہم کو دیکھنے والو اپنے اپنے ہیں اوقات
جاؤ نہ تم ان خشک آنکھوں پر ہم راتوں کو رو لیں ہیں
فطرت میری عشق و محبت قسمت میری تنہائی
کہنے کی نوبت ہی نہ آئی ہم بھی کسو کے ہو لیں ہیں...
غزل
یہ قول تِرا، یاد ہے اے ساقئ دَوراں !
انگوُر کے اِک بِیج میں سو میکدے پنہاں
انگڑائیاں صُبحوں کی سَرِ عارضِ تاباں
وہ کروَٹیں شاموں کی سرِ کاکُلِ پیچاں
اِن پُتلیوں میں جیسے ہرن مائلِ رَم ہوں
وحشت بھری آنکھیں ہیں کہ اِک دشتِ غزالاں
ہے دار و مدار اہلِ زمانہ کا تجھی پر
تُو قطبِ جہاں، کعبہ...
غزل
(فراق گورکھپوری)
زندگی درد کی کہانی ہے
چشمِ انجم میں بھی تو پانی ہے
بے نیازانہ سن لیا غمِ دل
مہربانی ہے مہربانی ہے
وہ بھلا میری بات کیا مانے
اس نے اپنی بھی بات مانی ہے
شعلۂ دل ہے یہ کہ شعلہ ساز
یا ترا شعلۂ جوانی ہے
وہ کبھی رنگ وہ کبھی خوشبو
گاہ گل گاہ رات رانی ہے
بن کے معصوم...
غزل
کمی نہ کی تِرے وحشی نے خاک اُڑانے میں
جنُوں کا نام اُچھلتا رہا زمانے میں
فِراقؔ! دَوڑ گئی رُوح سی زمانے میں
کہاں کا درد بھرا تھا مِرے فسانے میں
جنوُں سے بُھول ہُوئی دِل پہ چوٹ کھانے میں
فِراقؔ ! دیر ابھی تھی بہار آنے میں
وہ کوئی رنگ ہے ؟جو اُڑ نہ جائے اے گُلِ تر!
وہ کوئی بُو ہے؟ جو...
غزل
میکدے میں آج اِک دُنیا کو اِذنِ عام تھا
دَورِ جامِ بے خودی بے گانۂ ایّام تھا
رُوح لرازاں، آنکھ محوِ دِید، دِل ناکام تھا
عِشق کا آغاز بھی شائستۂ انجام تھا
رفتہ رفتہ عِشق کو تصویرِ غم کر ہی دِیا
حُسن بھی کتنا خرابِ گردشِ ایّام تھا
غم کدے میں دہر کے یُوں تو اندھیرا تھا، مگر
عِشق کا...
غزل
غم تِراجَلوَہ دَہِ کون و مکاں ہے، کہ جو تھا
یعنی اِنسان وہی شُعلہ بجاں ہے، کہ جو تھا
پھر وہی رنگِ تکلّم نگِہہ ناز میں ہے
وہی انداز، وہی حُسنِ بیاں ہے کہ جو تھا
کب ہے اِنکار تِرے لُطف وکَرَم سے، لیکن!
تووہی دُشمنِ دِل، دُشمنِ جاں ہے، کہ جو تھا
عِشقِ افسُردہ نہیں آج بھی افسُر دہ بہت ...
غزل
طوُر تھا، کعبہ تھا، دِل تھا ، جلوہ زارِ یار تھا
عِشق سب کچھ تھا مگر پھر عالَمِ اسرار تھا
نشۂ صد جام کیفِ انتظارِ یار تھا
ہجر میں ٹھہرا ہُوا دِل ساغرِ سرشار تھا
دِل دُکھے روئے ہیں شاید اِس جگہ، اے کوئے دوست!
خاک کا اِتنا چمک جانا ذرا دُشوار تھا
الوِداع اے بزمِ انجم، ہجر کی شب الفراق...