ادا جینے کی سیکھو گردشِ حالات سے پہلے
مکاں مضبوط کرلو موسمِ برسات سے پہلے
ازل کی صبح کا وعدہ لہو میں سنسناتا ہے
مجھے لبیک کہنا ہے شعورِ ذات سے پہلے
اب ان کے واسطے عصبیتوں کا زہر کافی ہے
مرا کرتے تھے انساں قدرتی آفات سے پہلے
یہی ڈر ہے کہ پھر دردِ جدائی گُنگ کردے گا
مجھے اک بات کہنی ہے...