اس کو بھی میری طرح نیند کدھر آتی ہے
رات بھر روشنی کھڑکی سے نظر آتی ہے
بے خیالی میں جو دیوار پہ رک جائے نظر
بات کرتی ہوئی تصویر ابھر آتی ہے
کوٹ کی جیب میں کھل جاتے ہیں رومال کے رنگ
اس کے کالر پہ کلی خوب نکھر آتی ہے
مجھ کو آتا ہے کسی دل کے سلگنے کا خیال
جب شرر اڑتے ہیں جب آگ نظر آتی...
ترے جنگل کی صندل ہوگئی ہوں
سلگنے سے مکمل ہوگئی ہوں
ذرا پیاسے لبوں کی اے اداسی
مجھے تو دیکھ چھاگل ہوگئی ہوں
بدن نے اوڑھ لی ہے شال اس کی
ملائم ، نرم ، مخمل ہوگئی ہوں
دھنسی جاتی ہے مجھ میں زندگانی
میں اک چشمہ تھی دلدل ہوگئی ہوں
کسی کے عکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینے سے اوجھل ہوگئی ہوں...
دوستو، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فرزانہ نیناں کی کتاب “درد کی نیلی رگیں“ کو میں برقیا رہا ہوں۔ کافی کام ہو چکا ہے اور تھوڑا سا باقی بچ گیا ہے۔ اس دھاگے پر آپ ان کے کلام سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں لیکن تبصرہ کے لئے اس دھاگے کو استعمال کیجئے گا۔ بہت شکریہ
بےبی ہاتھی