عرضِ ہنر بھی وجہِ شکایات ہو گئی
چھوٹا سا منہ تھا مجھ سے بڑی بات ہو گئی
دشنام کا جواب نہ سوجھا بجُز سلام
ظاہر مرے کلام کی اوقات ہو گئی
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
یا ضربتِ خلیل سے بت خانہ چیخ اٹھا
یا پتھروں کو معرفتِ ذات ہو گئی
یارانِ بے بساط کہ ہر...
نظم
سخت گیر آقا
آج بستر ہی میں ہُوں
کردِیا ہے آج
میرے مضمحل اعضا نے اِظہارِ بغاوت برملا
واقعی معلوم ہوتا ہے تھکا ہارا ہُوا
اور میں
ایک سخت گیر آقا ۔۔۔۔(زمانے کا غلام)
کِس قدر مجبُور ہُوں
پیٹ پُوجا کے لیے
دو قدم بھی ، اُٹھ کے جا سکتا نہیں
میرے چاکر پاؤں شل ہیں
جُھک گیا ہُوں اِن کمینوں کی رضا کے...
غزلِ
ضیا جالندھری
چاند ہی نِکلا نہ بادل ہی چھماچھم برسا
رات دِل پر، غمِ دِل صُورتِ شبنم برسا
جلتی جاتی ہیں جڑیں، سُوکھتے جاتے ہیں شجر
ہو جو توفیق تو آنسو ہی کوئی دَم برسا
میرے ارمان تھے برسات کے بادل کی طرح
غنچے شاکی ہیں کہ، یہ ابْر بہت کم برسا
پے بہ پے آئے سجل تاروں کی مانند خیال...
غزلِ
ضیا جالندھری
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکیں، اگر تُو آئے
بھیگ جاتی ہیں اِس اُمّید پر آنکھیں ہر شام
شاید اِس رات وہ مہتاب لبِ جُو آئے
ہم تیری یاد سے کترا کے گزُر جاتے مگر
راہ میں پُھولوں کے لب، سایوں کے گیسُو آئے
وہی لب تشنگی اپنی، وہی ترغیبِ...
غزلِ
ضیا جالندھری
جب اُنہی کو نہ سُنا پائے غمِ جاں اپنا
چُپ لگی ایسی، کہ خود ہو گئے زنداں اپنا
نا رسائی کا بیاں ہے، کہ ہے عرفاں اپنا
اس جگہ اَہْرَمن اپنا ہے، نہ یزداں اپنا
دم کی مُہلت میں ہے، تسخیرِ مہ و مہر کی دُھن !
سانس، اِک سلسلۂ خوابِ درخشاں اپنا
ہے طلب اُس کی ، کہ جو سرحدِ اِمکاں...
غزلِ
ضیا جالندھری
کیا سَروکار اب کسی سے مجھے
واسطہ تھا، تو تھا تجھی سے مجھے
بے حسی کا بھی اب نہیں احساس
کیا ہُوا تیری بے رُخی سے مجھے
موت کی آرزو بھی کر دیکھوں !
کیا اُمیدیں تھیں زندگی سے مجھے
پھر کسی پر، نہ اعتبار آئے!
یوں اُتارو نہ اپنے جی سےمجھے
تیرا غم بھی نہ ہو، تو کیا جِینا
کچھ...