غزل
دل ہے مگر کسی سے عداوت نہیں رہی
دنیا وہی ہے، ہم کو شکایت نہیں رہی
میں جانتا ہوں دہر میں اس قوم کا مآل
علم و ہنر سے جس کو محبت نہیں رہی
خوفِ خدا کے بعد پھر اِک چیز تھی حیا
وہ بھی دل و نگاہ کی زینت نہیں رہی
دنیا ترا نصیب، نہ عقبیٰ ترا نصیب
اب زندگی میں موت کی زحمت نہیں رہی
وہ دن قریب آ...