غزل. ... 29 جولائی 2019
دل میں پوشیدہ کوئی عشقِ بتاں رکھتے ہیں
گویا سیپی میں کوئی موتی نہاں رکھتے ہیں
جذبہ ء عشق کی جو تاب و تواں رکھتے ہیں
وہ خزاں میں بھی بہاروں کا سماں رکھتے ہیں
تجھ کو دنیا کے ہے ملنے پہ گماں تقویٰ کا
ہم تو عُقبیٰ کا ہی ہر لحظہ دھیاں رکھتے ہیں
اُن کو قارون کی دولت بھی ملے تو...
غزل
جو اَب جہانِ بَرَہنہ کا اِستعارہ ہُوا
مَیں زندگی تِرا اِک پیرَہَن اُتارا ہُوا
سِیاہ خُون ٹپکتا ہے لمحے لمحے سے !
نہ جانے رات پہ شب خُوں ہے کِس نے مارا ہُوا
جکڑ کے سانسوں میں تشہیر ہو رہی ہے مِری
میں ایک قید سپاہی ہُوں جنگ ہارا ہُوا
پھر اُس کے بعد وہ آنسو اُتر گیا دِل میں
ذرا سی دیر...
غزل
اُداس کر کے دَرِیچے نئے مکانوں کے
سِتارے ڈُوب گئے سبز آسمانوں کے
گئی وہ شب، جو کبھی ختم ہی نہ ہوتی تھی
ہوائیں لے گئیں اَوراق داستانوں کے
ہر آن برق چمکتی ہے، دِل دھڑکتا ہے
مِری قمیص پہ تِنکے ہیں آشیانوں کے
تِرے سکُوت سے وہ راز بھی ہُوئے افشا
کہ جِن کو کان ترستے تھے راز دانوں کے
یہ بات...
غزل
میرے ہر وصل کے دَوران مجھے گُھورتا ہے
اِک نئے ہجر کا اِمکان مجھے گُھورتا ہے
میرے ہاتھوں سے ہیں وابستہ اُمیدیں اُس کی
پُھول گرتے ہیں تو، گُلدان مجھے گُھورتا ہے
آئینے میں تو کوئی اور تماشہ ہی نہیں !
میرے جیسا کوئی اِنسان مجھے گُھورتا ہے
اب تو یُوں ہے کہ گُھٹن بھی نہیں ہوتی مجھ کو
اب...
غزلِ
رفیق سندیلوی
سیاہ رات ہو، ہر شے کو نیند آئی ہو
مِرے وجُود کی تقریبِ رُونمائی ہو
رکھا گیا ہو ہراِک خواب کو قرینے سے
زمینِ حجلۂ ادراک کی صفائی ہو
اُس اعتکافِ تمنّا کی سرد رات کے بعد !
میں جل مروں جو کبھی آگ تک جلائی ہو
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے، ساعتِ موجُود
مجھے قدیم زمانے میں کھینچ لائی...