فیس بک
خورشید اکبر
ایک دنیا بڑے کمال کی ہے
لمحہ لمحہ نئے سوال کی ہے
مہ وشوں کے جمال کی دنیا
جذبۂ اتصال کی دنیا
جھوٹ اور سچ کا بے سرا سنگم
ایک دنیا خیال پر قائم
جس کو میں چھوڑنا اگر چاہوں
اس سے منہ موڑنا اگر چاہوں
حسرتوں پر زوال آئے گا
حرف جاں پر سوال آئے گا
اب تو چہرے یقیں سے...
جاسمن کے شروع کردہ دھاگے،
جاسمن،
جدید اردو شاعریجدید اردو نظم،
جدید اردو نظمیں،
جدیدشاعریجدید نظمیں،
دور جدید کی نظمیں
فیس بک
فیس بک نظم،
فیس بک پہ نظم،
غزل
شہریار
کشتی جاں سے اُتر جانے کو جی چاہتا ہے
اِن دِنوں یُوں ہے کہ، مرجانے کو جی چاہتا ہے
گھر میں یاد آتی تھی کل دشت کی وُسعت ہم کو
دشت میں آئے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
کوئی صُورت ہو، کہ پِھر آگ رگ و پے میں بہے
راکھ بننے کو، بِکھر جانے کو جی چاہتا ہے
کیسی مجبُوری و لاچاری ہے، اُس کُوچے...
غزل
دہن کو زخم، زباں کو لہوُ لہوُ کرنا
عزیزو! سہل نہیں اُس کی گُفتگوُ کرنا
کُھلے درِیچوں کو تکنا، تو ہاؤ ہُو کرنا
یہی تماشا سرِ شام کوُ بہ کوُ کرنا
جو کام مجھ سے نہیں ہو سکا،وہ تُو کرنا
جہاں میں اپنا سفر مِثلِ رنگ و بُو کرنا
جہاں میں عام ہیں نکتہ شناسیاں اُن کی
تم ایک لفظ میں تشریحِ آرزُو...
غزل
جو اَب جہانِ بَرَہنہ کا اِستعارہ ہُوا
مَیں زندگی تِرا اِک پیرَہَن اُتارا ہُوا
سِیاہ خُون ٹپکتا ہے لمحے لمحے سے !
نہ جانے رات پہ شب خُوں ہے کِس نے مارا ہُوا
جکڑ کے سانسوں میں تشہیر ہو رہی ہے مِری
میں ایک قید سپاہی ہُوں جنگ ہارا ہُوا
پھر اُس کے بعد وہ آنسو اُتر گیا دِل میں
ذرا سی دیر...
غزل
عزیز حامد مدنی
سنبھل نہ پائے تو تقصیرِ واقعی بھی نہیں
ہر اِک پہ سہل کچھ آدابِ مے کشی بھی نہیں
اِدھر اُدھر سے حدیثِ غمِ جہاں کہہ کر
تِری ہی بات کی اور تیری بات کی بھی نہیں
وفائے وعدہ پہ دِل نکتہ چیں ہے وہ خاموش
حدیثِ مہر و وفاآج گفتنی بھی نہیں
بِکھر کے حُسنِ جہاں کا نظام کیا ہوگا
یہ...
شاعری !
شفیق خلش
شاعری ساز ہے ، آواز ہے، تصویریں ہیں
جس کی ہر حرف میں رقصاں کئی تعبیریں ہیں
ہیں مناظر لِئے احساس کو چُھوتی سطریں
ایک اِک شعر کی کیا کیا نہیں تفسیریں ہیں
یہ دِکھائے کبھی ہر رات سہانا سپنا
اور کبھی خواب کی اُلٹی لِکھی تعبیریں ہیں
تیغ زن مدِّ مُقابل ہیں عقائِد، تو کہیں
بھائی...
غزلِ
شفیق خلش
چُنے مجھے ہی ہمیشہ جہان بھر سے آگ
نہ چھوڑے جان بھی میری اگر مگر سے آگ
گو پُر ہے عِشق و محبّت کی اِک اثر سے آگ
لگے نہ سِینے میں اُس کے جہاں کی ڈر سے آگ
اب اور لوگوں کا کیا ذکر جب حقیقت میں
لگی نصِیب جَلے کو خود اپنے گھر سے آگ
نجانے کیا شبِ فرقت میں گُل کِھلاتی ہے
لگی یہ...
غزلِ
شام تک صُبْح کی نظروں سے اُتر جاتے ہیں
اِتنے سمجھوتوں پہ جِیتے ہیں کہ مرجاتے ہیں
ہم تو بے نام اِرادوں کے مُسافر ٹھہرے
کچھ پتا ہو تو بتائیں کہ کِدھر جاتے ہیں
گھر کی گِرتی ہُوئی دِیوار ہے ہم سے اچھّی
راستہ چلتے ہُوئے لوگ ٹھہر جاتے ہیں
اِک جُدائی کا وہ لمحہ، کہ جو مرتا ہی نہیں...
غزلِ
باقر نقوی
(لندن)
درد ایسا ہے کہ سِینے میں سماتا بھی نہیں
ہنسنے دیتا بھی نہیں اور رُلاتا بھی نہیں
پہروں پِھرتا ہُوں اندھیروں کے گھنے جنگل میں
کوئی آسیب مجھے آکے ڈراتا بھی نہیں
ایک تِنکا ہُوں، پڑا ہُوں لبِ ساحل کب سے
کوئی جَھونکا مجھے پانی میں بہاتا بھی نہیں
سادہ سادہ سَحَر و شام...
جون ایلیا
مر مِٹا ہُوں خیال پر اپنے
وجد آتا ہے حال پر اپنے
ابھی مت دِیجیو جواب، کہ میں
جُھوم تو لوُں سوال پر اپنے
عُمر بھر اپنی آرزُو کی ہے
مر نہ جاؤں وصال پر اپنے
اِک عطا ہے مِری ہوس نِگہی
ناز کر خدّ و خال پر اپنے
اپنا شوق ایک حیلہ ساز، سو اب
شک ہے اُس کو جمال پر اپنے
جانے اُس دَم، وہ...