غزل
میرے ہر وصل کے دَوران مجھے گُھورتا ہے
اِک نئے ہجر کا اِمکان مجھے گُھورتا ہے
میرے ہاتھوں سے ہیں وابستہ اُمیدیں اُس کی
پُھول گرتے ہیں تو، گُلدان مجھے گُھورتا ہے
آئینے میں تو کوئی اور تماشہ ہی نہیں !
میرے جیسا کوئی اِنسان مجھے گُھورتا ہے
اب تو یُوں ہے کہ گُھٹن بھی نہیں ہوتی مجھ کو
اب...
غزل
عزیز حامد مدنی
سنبھل نہ پائے تو تقصیرِ واقعی بھی نہیں
ہر اِک پہ سہل کچھ آدابِ مے کشی بھی نہیں
اِدھر اُدھر سے حدیثِ غمِ جہاں کہہ کر
تِری ہی بات کی اور تیری بات کی بھی نہیں
وفائے وعدہ پہ دِل نکتہ چیں ہے وہ خاموش
حدیثِ مہر و وفاآج گفتنی بھی نہیں
بِکھر کے حُسنِ جہاں کا نظام کیا ہوگا
یہ...
غزل
امیدِ عاقبتِ کار کے برابر ہے
یہ اک درخت کہ دیوار کے برابر ہے
زیادہ دور نہیں امن و جنگ آپس میں
یہ فاصلہ تری تلوار کے برابر ہے
تجھے خبر نہیں یہ ایک بار کا انکار
ہزار بار کے اقرار کے برابر ہے
کھلی ہے اور کوئی گاہک ادھر نہیں آتا
دکانِ خواب کہ بازار کے برابر ہے
ہو اس کے بعد...
غزل
جو کہہ دیتا ، مرا ایثار ج۔۔۔اتا
جو چپ رہتا تو بازی ہار ج۔۔اتا
گرا سکتا تھا دیواریں تو ساری
کسی کا س۔۔۔ایہِ دیوار ج۔۔۔اتا
مرے ہاتھوں میں بھی کچا گھڑا تھا
تو پھر میں کیسے دریا پار ج۔۔۔اتا
نہ ہوتا دل اگر اس۔۔۔۔ کا س۔۔۔۔مندر
تو میرا ڈوبنا بیکار ج۔۔۔اتا
حقیقت بھی بتا سکتا تھا سب کو...