انتظار
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے آپ آتے رہے، جاتے رہے
خوش تھے ہم اپنی تمناؤں کا خواب آئے گا
اپنا ارمان بر افگندہ نقاب آئے گا
نظریں نیچی کیے شرمائے ہوئے آئے گا
کاکلیں چہرے پہ بکھرائے ہوئے آئے گا
آ گئی تھی دلِ مضطر میں شکیبائی سی
بج رہی تھی مرے غم خانے میں شہنائی سی...
ہمسفر بن کے ہم ساتھ ہیں آج بھی، پھر بھی ہے یہ سفر اجنبی اجنبی
راہ بھی اجنبی، موڑ بھی اجنبی، جائیں گے ہم کدھر اجنبی اجنبی
زندگی ہو گئی ہے سلگتا سفر، دور تک آ رہا ہے دھواں سا نظر
جانے کس موڑ پر کھو گئی ہر خوشی، دے کے دردِ جگر اجنبی اجنبی
ہم نے چن چن کے تنکے بنایا تھا جو، آشیاں حسرتوں سے سجایا...
بہت دنوں کی بات ہے
خزاں کو یاد بھی نہیں
یہ بات آج کی نہیں
بہت دنوں کی بات ہے
شباب پر بہار تھی
فضاء بھی خشگوار تھی
نہ جانے کیوں مچل پڑا
میں اپنے گھر سے چل پڑا
کسی نے مجھے روک کر
بڑی ادا سے ٹوک کر
کہا تھا ! لوٹ آئیے
میری قسم نہ جائیے
میں شہر سے تھا پھر گیا
خیال تھا کہ پا گیا
وپ جو مجھ سے دور...
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا
اپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی
ہر طرف بھاگتے دوڑتے راستے
ہر طرف آدمی کا شکار آدمی
روز جیتا ہوا روز مرتا ہوا
ہر نئے دن نیا انتظار آدمی
زندگی کا مقدر سفر در سفر
آخری سانس تک بے قرار آدمی...
اپنی آنکھوں کے سمندر میں اُتر جانے دے
تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مرجانے دے
اے نئے دوست میں سمجھوں گا تجھے بھی اپنا
پہلے ماضی کا کوئی زخم تو بھر جانے دے
آگ دنیا کی لگائی ہوئی بجھ جائے گی
کوئی آنسو میرے دامن پہ بکھر جانے دے
زخم کتنے تیری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو
سوچتا ہوں کہ کہوں...