ہر لب پہ ہے غیروں کی عداوت کی کہانی
اِس عہد کو سمجھے ہیں اعالی نہ ادانی
یہ علم کی آفت ہے ، خدا اِس سے بچائے
ہر دور کے ملاؤں کا زعم ہمہ دانی
رہتی ہے کہاں اُس سے مروت کی توقع
مر جاتا ہے انسان کی جب آنکھ کا پانی
کہتے ہیں کہ ہر گھر میں ہے عورت کی حکومت
یہ بات مگر سنتے ہیں مردوں کی زبانی
لے جاتی...
ویلنٹائن ڈے پرغامدی صاحب کی رائے!
از جاوید احمد غامدی
یہ جتنے بھی تہوار ہیں یہ قوموں کے ہاں موسموں کے تغیر سے پیدا ہوتے ہیں ، تاریخی روایات سے پیدا ہوتے ہیں ، آب و ہوا سے پیدا ہوتے ہیں، ان کے پیدا ہونے کے بے شمار اسباب ہیں۔ ہم جب ہندوستان میں آئے تھے مسلمان کی حیثیت سے تو یہاں بھی کچھ تہوار...
وہ اہلِ درد جو غم کو شعار کرتے ہیں
اُنھی کا اہلِ جہاں اعتبار کرتے ہیں
یہ ایک جان تھی ، دوبھر ہوئی رقیبوں کو
لو آج اِس کو بھی ہم نذرِ یار کرتے ہیں
کسے خبر ہے کہ ہوش و خرد پہ کیا گزرے
وہ اپنی زلف کو پھر تاب دار کرتے ہیں
اگر نہیں گل و لالہ ، سرشک خون تو ہیں
اِنھی سے دشت کو باغ و بہار کرتے ہیں...
آپ شروع سے اصلاحی تھے۔‘‘ میرا سوال سن کر وہ مسکرائے۔ ’’نہیں یہ اصلاحی ان معنوں میں نہیں ہے۔ مدرسہ اصلاح سے فارغ ہونے کے بعد اس مناسبت کے باعث یہ نام اختیار کیا۔ ۱۹۵۳ء کی بات ہے یہ۔ تب میں ۲۱، ۲۲ سال کا تھا، جب آدابِ زندگی لکھی، یہاں پاکستان میں آپ کے مخاطب صرف مسلمان ہیں۔ وہاں اس کو ہندو اور...