غزل
مُسابَقَت میں مزہ کوئی دَم نہیں ہوتا
ذرا جو فِطرَتِ آہُو میں رَم نہیں ہوتا
یہ لُطف، عِشق و محبّت میں کم نہیں ہوتا!
بہت دِنوں تک کوئی اور غم نہیں ہوتا
دِلوں کے کھیل میں سب حُکم دِل سے صادِر ہوں
زماں کا فیصلہ یکسر اَہَم نہیں ہوتا
تمھارے ساتھ گُزارے وہ چند لمحوں کا
ذرا سا کم کبھی لُطفِ...
غزلِ
بشیر بدر
نَظر سے گُفتگُو، خاموش لَب تمھاری طرح
غزل نے سِیکھے ہیں انداز سب تمھاری طرح
جو پیاس تیز ہو تو ریت بھی ہے چادرِ آب
دِکھائی دُور سے دیتے ہیں سب تمھاری طرح
بُلا رہا ہے زمانہ، مگر ترستا ہُوں
کوئی پُکارے مُجھے بے سَبَب تمھاری طرح
ہَوا کی طرح مَیں بیتاب ہُوں، کہ شاخِ گُلاب
لہکتی ہے...
غزل
شفیق خلشؔ
پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی
خوشبو رَچی تھی یاد، بہت دُور تک گئی
نِسبت سے کیا ہی خُوب نظارے تھے پَیش رُو
اِک یاد لے کے شاد بہت دُور تک گئی
ہم ڈر رہے تھے کوس قیادت پہ زِیست کی !
لے کر پُر اعتماد بہت دُور تک گئی
منزِل کی رَہنُمائی پَزِ یرائی سے مِلی!
پہلی غَزل کی داد بہت دُور...
غزل
میرتقی میؔر
مَیلانِ دِل ہے زُلفِ سِیہ فام کی طرف
جاتا ہے صید آپ سے اِس دام کی طرف
دِل اپنا عدلِ داورِ محشر سے جمع ہے
کرتا ہے کون عاشقِ بدنام کی طرف
اِس پہلُوئے فِگار کو بستر سے کام کیا
مُدّت ہُوئی، کہ چُھوٹی ہے آرام کی طرف
یک شب نظر پڑا تھا کہیں تو ،سو اب مُدام
رہتی ہے چشمِ ماہ تِرے بام...
غزل
تیری صُورت جو، دِل نشیں کی ہے!
آشنا ، شکل ہر حَسِیں کی ہے
حُسن سے دِل لگا کے، ہستی کی!
ہر گھڑی ہم نے آتشِیں کی ہے
صُبح ِگُل ہو، کہ شامِ میخانہ
مدح ، اُس رُوئے نازنِیں کی ہے
شیخ سے بے ہراس ملتے ہیں
ہم نے، توبہ ابھی نہیں کی ہے
ذکرِ دوزخ بیانِ حُور و قصُور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
اشک...
"کولاژ"
اُس نے مُٹھی کے گُلداں میں ٹہنی رکھی
پتیوں کے کنارے چمکنے لگے
پُھول بھرنے لگے اور چھلکنے لگے
اُس نے پاؤں دھرے گھاس کے فرش پر
پاؤں کا دُودِھیا پَن سوا ہوگیا
سبزہ پہلے سے زیادہ ہرا ہوگیا
اُس نے دیکھا اماوس بھری رات کو
رات کے سنگ خارا میں روزن ہُوا
نُور جوبن ہُوا، چاند روشن ہُوا
اُس نے...
ابھی کُچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں
وہ گِنتے ہیں بیٹھے ہماری خطائیں
نہیں آتے پل کو جو پہروں یہاں تھے
اثر کھو چُکی ہیں سبھی اِلتجائیں
زمانہ ہُوا چھوڑ آئے وطن میں
نظر ڈُھونڈتی ہے اب اُن کی ادائیں
مِرے خونِ ناحق پہ اب وہ تُلے ہیں
جو تھکتے نہ تھے لے کے میری بَلائیں
خَلِشؔ تم زمیں کے، وہ ہیں...
غزل
رَہِ شوق سے، اب ہَٹا چاہتا ہُوں
کشِش حُسن کی دیکھنا چاہتا ہُوں
کوئی دِل سا درد آشنا چاہتاہُوں
رَہِ عِشق میں رہنُما چاہتا ہُوں
تجھی سے تجھے چِھیننا چاہتا ہُوں
یہ کیا چاہتا ہُوں، یہ کیا چاہتا ہُوں
خطاؤں پہ، جو مجھ کو مائل کرے پھر
سزا ، اور ایسی سزا چاہتا ہُوں
وہ مخمُور نظریں، وہ مدہوش...
غزل
تمھاری، دِل میں محبّت کا یُوں جواب نہیں
کہ اِس سے، ہم پہ مؤثر کوئی عذاب نہیں
ہزاروں پُوجے مگر بُت کوئی نہ ہاتھ آیا
تمام عُمْر عبادت کا اِک ثواب نہیں
اُمیدِ وصْل سے قائم ہیں دھڑکنیں دِل کی
وگرنہ ہجر میں ایسا یہ کم کباب نہیں
سِوائے حُسن کسی شے کی کب اِسے پروا
ہمارے دِل سے بڑا دہرمیں...
ذرّوں سے باتیں کرتے ہیں، دِیوار و دَر سے ہم
وابستہ کِس قدر ہیں ، تِری رہگُذر سے ہم
دیکھا جہاں بھی حُسن، وہیں لَوٹ ہو گئے!
تنگ آ گئے ہیں اپنے مزاجِ نظر سے ہم
چھیڑَیں کسی سے، اور ہمارے ہی سامنے!
لڑتے ہیں دِل ہی دِل میں، نَسِیمِ سَحر سے ہم
اِتنی سی بات پر ہے بس اِک جنگِ زرگری
پہلے اُدھر...
غزل
یہ حُسنِ عُمرِ دو روزہ تغیّرات سے ہے
ثباتِ رنگ اِسی رنگِ بے ثبات سے ہے
پرودِیئے مِرے آنسوسَحر کی کِرنوں نے
مگر وہ درد، جو پہلوُ میں پچھلی رات سے ہے
یہ کارخانۂ سُود و زیانِ مہر و وفا
نہ تیری جیت سے قائم، نہ میری مات سے ہے
مجھے تو فُرصتِ سیرِ صِفاتِ حُسن نہیں
یہاں جو کام ہے، وابستہ تیری...
غزل
سُناتا ہے کوئی بُھولی کہانی
مہکتے مِیٹھے دریاؤں کا پانی
یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سُنا ہے میں نے لوگوںکی زبانی
یہاں اِک شہر تھا ،شہرِ نگاراں !
نہ چھوڑی وقت نے اُس کی نشانی
مَیں وہ دِل ہُوں دبِستانِ الَم کا
جسے رَوئے گی صدیوں شادمانی
تصوّر نے اُسے دیکھا ہے اکثر
خِرَد کہتی ہے جس کو...
غزل
کب سماں دیکھیں گے ہم زخموں کے بھر جانے کا
نام لیتا ہی نہیں وقت گُزرجانے کا
جانے وہ کون ہے جو دامنِ دِل کھینچتا ہے
جب کبھی ہم نے اِرادہ کِیا مرجانے کا
دستبردار، ابھی تیری طلب سے ہو جائیں!
کوئی رستہ بھی تو ہو، لَوٹ کے گھر جانے کا
لاتا ہم تک بھی کوئی، نیند سے بَوجھل راتیں
آتا ہم کو بھی...
غزل
دبائے دانتوں میں اپنی زبان بیٹھے ہیں
ہم اُن سے کچھ نہ کہیں گے یہ ٹھان بیٹھے ہیں
رہِ غزال میں باندھے مچان بیٹھے ہیں
ہم آزمانے کو قسمت ہی آن بیٹھے ہیں
کُشادہ دل ہیں، سِتم سے رہے ہیں کب خائف
کریں وہ ظُلم بھی ہم پرجو ٹھان بیٹھے ہیں
نہیں ہے اُن سے ہماری کوئی شناسائی
گلی میں شوقِ تجلّی میں...
غالب کہ یہ دِل خستہ شَبِ ہجر میں مر جائے
یہ رات نہیں وہ، جو کہانی میں گُزر جائے
ہے طُرفہ مُفتّن نِگہ اُس آئینہ رُو کی!
اِک پَل میں کرے سینکڑوں خُوں، اور مُکر جائے
نہ بُت کدہ ہے منزلِ مقصود، نہ کعبہ!
جو کوئی تلاشی ہو تِرا ، آہ ! کِدھر جائے
ہر صُبح تو خورشید تِرے مُنہ پہ چڑھے ہے
ایسا نہ ہو ،...
روز و شب کا رہا خیال نہیں!
کیوں یُوں گذریں کا بھی ملال نہیں
اک تنومند ہے شجر دُکھ کا
غم مِرا، اب غمِ نہال نہیں
لوگ پُوچھیں ہیں نام تک اُس کا
صرف افسُردگی سوال نہیں
کچھ بھی کہنا کہاں ہے کچھ مُشکل
کچھ کہوں دِل کی، یہ مجال نہیں
لوگ ہنستے ہیں حال پر جو مِرے
میں بھی ہنستا ہوں کیا کمال نہیں
آ...
کوئی جیتا ، کوئی مرتا ہی رہا
عِشق اپنا کام کرتا ہی رہا
جمع خاطر کوئی کرتا ہی رہا
دِل کا شیرازہ بِکھرتا ہی رہا
غم وہ میخانہ، کمی جس میں نہیں
دِل وہ پیمانہ، کہ بھرتا ہی رہا
حُسن تو تھک بھی گیا ، لیکن یہ عِشق
کارِ معشوقانہ کرتا ہی رہا
وہ مِٹاتے ہی رہے، لیکن یہ دِل
نقش بن بن کر اُبھرتا...