غزل
وہ جی گیا جو عِشق میں جی سے گُزر گیا
عیسیٰ کو ہو نَوِید کہ بیمار مر گیا
آزاد کُچھ ہُوئے ہیں اَسِیرانِ زندگی
یعنی جمالِ یار کا صدقہ اُتر گیا
دُنیا میں حالِ آمد و رفتِ بَشر نہ پُوچھ
بے اختیار آ کے رہا ، بے خبر گیا
شاید کہ شام ِہجر کے مارے بھی جی اُٹھیں
صُبحِ بہار ِحشر کا چہرہ اُتر گیا
آیا...
غزل
جان لینے کو یہ احساس کہِیں کُچھ کم ہے
پیار مجھ سے تمھیں پہلا سا نہیں، کُچھ کم ہے
زیست، کب اُس کے تخیّل سے حَسیں کُچھ کم ہے
اب بھی صُورت ہے وہی دِل کے قرِیں، کُچھ کم ہے
اُن پہ دعویٰ ،کہ ہیں پریوں سے حَسِیں، کُچھ کم ہے
کون کہہ سکتا ہے حُوروں سی نہیں، کُچھ کم ہے
رُخِ سیماب پہ...