پہلے اِک شخص میری ذات بنا
اور پھر پوری کائنات بنا
حُسن نے خود کہا مصور سے
پاؤں پر میرے کوئی ہاتھ بنا
پیاس کی سلطنت نہیں مٹتی
لاکھ دجلے بنا، فرات بنا
غم کا سورج وہ دے گیا تجھ کو
چاہے اب دن بنا کہ رات بنا
شعر اِک مشغلہ تھا قاصرؔ کا
اب یہی مقصدِ حیات بنا
غلام محمد قاصر
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
اسی کی شکل مجھے چاند میں نظر آئے
وہ ماہ رخ جو لبِ بام بھی نہیں آتا
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
بٹھا دیا مجھے دریا کے اس کنارے پر
جدھر حبابِ تہی جام بھی نہیں آتا
چرا کے خواب وہ آنکھوں...