غزل
صفؔی لکھنوی
ذرّے ذرّے میں ہے جلوہ تِری یکتائ کا
دِلِ اِنساں میں، جو ہو شوق شناسائ کا
موت ہی قصد نہ کرتی جو مسیحائ کا
کون پُرساں تھا مَرِیضِ شَبِ تنہائ کا
میری خوشبُو سے ہیں، آزاد ہَوائیں لبریز
عطرِ دامن ہُوں قبائے گُلِ صحرائ کا
تا سَحر چشمِ تصوُّر میں رہی اِک تصوِیر
دِل سے ممنُون ہُوں...
غزل
کوئی نغمہ بنو چاندنی نے کہا ، چاندنی کیلیے ایک تازہ غزل
کوئی تازہ غزل، پھر کسی نے کہا ، پھرکسی کیلیے ایک تازہ غزل
زخمِ فرقت کو پلکوں سے سیتے ہوئے ، سانس لینے کی عادت میںجیتے ہوئے
اب بھی زندہ تم ، زندگی نے کہا ، زندگی کیلیے ایک تازہ غزل
ا س کی خواہش پہ تم کو بھروسہ بھی ہے، اس کے...