بیاں سے اس لئے بھی آج ماورا دکھ ہے
تمھیں پتہ ہی نہیں یار مجھ کو کیا دکھ ہے!
گریز مجھ سے ترا تو سمجھ میں آتا ہے
رقیب سے یہ مگر تیرا رابطہ ، دکھ ہے!
تمھاری ذرّہ نوازی سے ہے فراوانی
ہمارے شہر میں اب ملتا جابجا دکھ ہے
یہ کڑوا کڑوا سا جو ذائقہ ہے اشکوں کا
نمک نہیں ہے فقط، اس میں تیرتا دکھ ہے...