غزل
نہ ہوں آنکھیں تو پیکر کچھ نہیں ہے
جو ہے باہر، تو اندر کچھ نہیں ہے
محبّت اور نفرت کے عِلاوہ
جہاں میں خیر یا شر کچھ نہیں ہے
مجھے چھوٹی بڑی لگتی ہیں چیزیں
یہاں شاید برابر کچھ نہیں ہے
حقِیقت تھی، سو میں نے عرض کردی
شِکایت بندہ پَروَر کچھ نہیں ہے
نہ ہو کوئی شریکِ حال اُس میں
تو...
غزلِ
شفیق خلش
چُنے مجھے ہی ہمیشہ جہان بھر سے آگ
نہ چھوڑے جان بھی میری اگر مگر سے آگ
گو پُر ہے عِشق و محبّت کی اِک اثر سے آگ
لگے نہ سِینے میں اُس کے جہاں کی ڈر سے آگ
اب اور لوگوں کا کیا ذکر جب حقیقت میں
لگی نصِیب جَلے کو خود اپنے گھر سے آگ
نجانے کیا شبِ فرقت میں گُل کِھلاتی ہے
لگی یہ...