غزل
جلیل حسن جلیؔل
چال سے فتنۂ خوابیدہ جگاتے آئے!
آپ، جب آئے قیامت ہی اُٹھاتے آئے
نالۂ گرم نے، اِتنا نہ کِیا تھا رُسوا
اشک کمبخت تو، اور آگ لگاتے آئے
دِل کو مَیں اُن کی نِگاہوں سے بچاتا، کیونکر
دُور سے، تِیر نِشانے پہ لگاتے آئے
آئے ہم سُوئے قَفس ، چھوڑ کے جب گُلشن کو
آہ سے آگ نشیمن میں...
غزل
(جلیلؔ مانک پوری)
اپنے رہنے کا ٹھکانا اور ہے
یہ قفس یہ آشیانا اور ہے
موت کا آنا بھی دیکھا بارہا
پر کسی پر دل کا آنا اور ہے
ناز اٹھانے کو اٹھاتے ہیں سبھی
اپنے دل کا ناز اٹھانا اور ہے
درد دل سن کر تمہیں نیند آ چکی
بندہ پرور یہ فسانا اور ہے
رات بھر میں شمع محفل جل بجھی
عاشقوں کا...
غزل
(جلیلؔ مانک پوری)
سخت نازک مزاج دلبر تھا
خیر گزری کہ دل بھی پتھر تھا
مختصر حال زندگی یہ ہے
لاکھ سودا تھا اور اک سر تھا
ان کی رخصت کا دن تو یاد نہیں
یہ سمجھئے کہ روز محشر تھا
خاک نبھتی مری ترے دل میں
ایک شیشہ تھا ایک پتھر تھا
تم مرے گھر جو آنے والے تھے
کھولے آغوش صبح تک در تھا...
غزل
(جلیل مانک پوری)
عشق میں رنگیں جوانی ہوگئی
زندگانی زندگانی ہوگئی
تم جو یاد آئے تو ساری کائنات
ایک بھولی سی کہانی ہوگئی
موت سمجھا تھا میں اُلفت کو مگر
وہ حیاتِ جاودانی ہوگئی
خونفشاں تھے سب مرے زخمِ جگر
ہنس پڑے تم، گلفشانی ہوگئی
اُن کی آنکھیں دیکھ کر اپنی نظر
کاشفِ رازِ نہانی ہوگئی
چلتے...